کراچی میں ادبی میلے کی بہار
ہر سال کی طرح اس سال بھی ’کراچی لٹریچر فیسٹیول‘ کے نام سے ادبی میلے کا اہتمام کیا گیا۔ یہ میلہ پانچ فروری کو شروع ہوا تھا اور سات فروری کو اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے۔ ناقدین میلے میں ادب کی کمی کا شکوہ کر رہے ہیں۔
’کالم سے اردو بلاگرز تک‘
کراچی ادبی میلے کی ایک نشست کا عنوان ’کالم سے اردو بلاگرز تک‘ تھا۔ اس نشست کی میزبانی وجاہت مسعود نے کی جبکہ اس موضوع پر اظہارِ خیال کرنے والوں میں اصغر ندیم سید، مسعود اشعر، امر جلیل، وسعت اللہ خان اور مبشر علی زیدی بھی شامل تھے۔
حاضرین ہمہ تن گوش
اس بار کے میلے میں پاکستان اور دیگر ممالک کے ڈھائی سو سے زائد ادیب شعراء اور قلم کار شرکت کر رہے ہیں۔ گزشتہ برس کے میلے میں سوا لاکھ افراد شریک ہوئے تھے جبکہ اس مرتبہ شرکاء کی تعداد اور بھی زیادہ رہی۔
’میلہ پاکستان کے شاندار ادبی ورثے کا نمائندہ‘
افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کراچی میں متعین امریکی قونصل جنرل برائن ہیتھ نے کہا کہ لٹریچر فیسٹیول اس شہر کی اہم ترین ثقافتی تقریب ہے، جس میں پاکستانی اور غیر ملکی ادیبوں، شاعروں اور فنکاروں کو ایک جگہ مل بیٹھنے کا موقع فراہم کیا جاتا ہے اور وہ اپنے خیالات دوسروں تک پہنچا سکتے ہیں۔ مزید یہ کہ یہ میلہ پاکستان کے شاندار ادبی ورثے کی بھی نمائندگی کرتا ہے۔
کتھک ڈانس پر جگنی
پانچ فروری کو میلے کے پہلے روز معروف کلاسیکل رقاصہ شیما کرمانی کے شاگردوں نے کتھک ڈانس پر جگنی پیش کی، جسے حاضرین نے بہت پسند کیا۔
کتابیں ہی کتابیں
علم و ادب سے دوستی رکھنے والوں کو اب لٹریچر فیسٹیول کا انتظار رہنے لگا ہے اور کتاب دوستی کو برقرار رکھنے کے لیے ہی ہر سال یہ میلہ منعقد کیا جاتا ہے۔ کئی بُک سٹال بھی لگائے گئے تھے، جہاں شائقین نے کتابیں دیکھیں بھی اور خریدیں بھی۔ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کے زیر انتظام منعقد کیے جانے والے اس ادبی میلے میں جرمنی، اٹلی، فرانس اور امریکا کی جانب سے پانچ مختلف کیٹیگریز میں خصوصی انعامات بھی دیے گئے۔
جرمن امن انعام کی روایت
کراچی میں جرمنی کے قونصل جنرل رائنر شمیڈشن محمد عامر رانا کو اُن کی پاکستان میں عسکریت پسندی کے موضوع پر انگریزی زبان میں شائع ہونے والی کتاب ’دا ملیٹینٹ: ڈیویلپمنٹ آف دی جہادی کیریکٹر ان پاکستان‘ کے لیے ساڑھے تین لاکھ روپے مالیت کا جرمن امن انعام دے رہے ہیں۔ ساتھ اس ادبی میلے کی روحِ رواں اور آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کی مینیجنگ ڈائریکٹر امینہ سید کھڑی ہیں۔
’ابھی تو میں جوان ہوں‘
عائلہ رضا کی میزبانی میں منعقد ہونے والی اس نشست کو ’ابھی تو میں جوان ہوں‘ کا عنوان دیا گیا تھا۔ یہ عنوان مایہ ناز گلوکارہ ملکہ پکھراج کے گائے ہوئے مشہور گیتوں میں سے ایک کے پہلے مصرعے سے لیا گیا تھا۔ ملکہ پکھراج کے فن پر بات کرنے والوں میں اُن کی بیٹی اور معروف گلوکارہ طاہرہ سید کے ساتھ ساتھ ممتاز موسیقار ارشد محمود بھی اسٹیج پر موجود تھے۔
لکشمی نارائن ترپاٹھی
بھارت کے لکشمی نارائن ترپاٹھی ایک ہیجڑا ہیں اور انہوں نے ’می لکشمی، می ہیجڑا‘ کے عنوان سے ایک کتاب بھی شائع کی ہے۔ میلے کی اس نشست کو ’ہی، شی اَور ...‘ کا عنوان دیا گیا تھا۔ اس نشست میں لکشمی (دائیں) نے بھارت میں ہیجڑا کمیونٹی کے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک کی بھی مثالیں دیں۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ انہوں نے دنیا کے مختلف ملکوں کا سفر کیا ہے لیکن پاکستان آنا اُن کا ایک خواب تھا، جو اب پورا ہوا ہے۔
گوناگوں موضوعات پر مذاکرے و مباحثے
اس سہ روزہ فیسٹیول میں بھارتی مصنف خوشونت سنگھ کی کتاب ٹرین ٹو پاکستان سمیت کئی ملکی اور غیر ملکی مصنفین کی کتابوں کی تقاریب رونما منعقد کی گئیں جبکہ مختلف عنوانات پر مذاکرے بھی اس میلے کے پروگرام میں شامل رہے۔