کراچی میں بدامنی کے اقتصادی اثرات
16 نومبر 2010کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کے شکار ایک شخص کی لاش کے ساتھ کھڑےایک مردہ خانے میں کام کرنے والے معراج محسن کا کہنا ہے کہ ایسا بھی ہوا ہے کہ ایک ہفتے میں 30 سے 40 لاشیں تک لائی گئی ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ جب ایک پارٹی کا کارندہ مارا جاتا ہے تو انہیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کے جواب میں اب کئی اموات ہوں گی کیونکہ اس کا الزام اب حریف جماعت پر لگایا جائے گا۔
کچھ حوالوں سےکراچی کے حالات ملک کے شمال مغربی علاقوں میں جاری دہشت گردی اور شدت پسندی کی نسبت پاکستان کے استحکام کے حوالے سے زیادہ نازک ہیں۔
انٹرنیشنل کرائسس گروپ کی ڈائریکٹر ثمینہ احمد کہتی ہیں کہ اس وقت کراچی میں جاری سیاسی کشمکش شہر کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ خاص طور پر ایسے وقت میں کہ جب صوبائی جماعتوں کے اتحاد میں اس قدر تناؤ پیدا ہو جائے کہ اس کا نتیجہ فسادات کی صورت میں ظاہر ہو۔ وہ مزید کہتی ہیں، " کراچی پاکستان کا اقتصادی مرکز ہے۔ اگر کراچی کو اقتصادی طور پر نقصان پہنچتا ہے تو اس کا اثر پورے پاکستان پر پڑتا ہے۔"
قریب دوکروڑ کی آبادی والا شہر کراچی بظاہر تو کسی بھی عام گنجان آباد شہر کی طرح دکھائی دیتا ہے تاہم یہاں جرائم کی خبریں شہ سرخیوں میں نمایاں رہتی ہیں۔ اکثرکیسوں میں یہ الزام بھی عائد کیا جاتا ہے کہ کراچی کے حالات کی خرابی کے ذمہ دار جرائم پیشہ اور شرپسند عناصر، منشیات فروش، اسلحہ فروش اور زمینوں پر ناجائز قبضہ کرنے والے گروپوں کا تعلق سیاسی پارٹیوں سے ہوتا ہے۔ دوسری جانب صورتحال یہ ہے کہ شہر میں پولیس فورس کی تعداد صرف 33 ہزار ہے جس کے پاس نہ تو مناسب اسلحہ ہے اور نہ ہی وسائل۔
کراچی میں مذہبی،نسلی اور فرقہ وارانہ فسادات کی ایک تاریخ ہے ۔ سال رواں کئی افراد کو نشانہ بنا کر قتل کیا گیا ہے جس کے باعث حکومت کی کار کردگی پر بھی کئی سوالات اٹھائے گئے۔
کراچی شہر میں ملکی محصولات کا 68 فیصد جمع ہوتا ہے جبکہ ملک کی مجموعی پیداوار کا کل 25 فیصد بھی اسی شہر سے حاصل ہوتا ہے ۔ اس کے علاوہ زیادہ تر غیر ملکی کمپنیوں کے ہیڈ کواٹرز بھی اسی شہر میں ہیں۔ ایسے میں اگر شہر کے حالات متاثر ہوتے ہیں تو اس کا براہ راست اثر صنعتی پیداوار اور پھر مجموعی آمدنی پر پڑتا ہے۔ ایک ایسے وقت میں یہ صورتحال اور بھی زیادہ نازک بن جاتی ہے جب سیلاب کی حالیہ تباہ کاریوں کے باعث پاکستان کی معاشی صورتحال پہلے ہی دگرگوں ہے۔
رپورٹ: عنبرین فاطمہ
ادارت: کشورمصطفیٰ