کراچی میں غیر قانونی اسلحے کی بھرمار
12 مئی 2010کراچی شہرمیں غیر قانونی ہتھیاروں کی بڑھتی ہوئی تعداد کا درست اندازہ متحارب دھڑوں کے درمیان تصادم یا نئے سال کے آغاز پر ہوائی فائرنگ سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔
وزارت داخلہ کی ایک خفیہ رپورٹ کے مطابق اس شہر میں سرگرم سیاسی، لسانی اور فرقہ وارانہ گروپ اپنے مذموم مقاصد اور شہر پر اپنی گرفت مضبوط بنانے کے لئے غیر قانونی اسلحہ کا آزادانہ استعمال کرتے ہیں۔ اِن دنوں قیمتی سرکاری اور پرائیوٹ زمینوں پر ناجائز قبضے کے لئے ان تمام نام نہاد سیاسی گروپوں کے کارندے ایک دوسرے سے نبرد آزما ہیں اور زمینوں پر قبضے کی جنگ اکثر مسلح تصادم میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ اِس دوران ہتھیاروں کا بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے لیکن پولیس سیاسی دباﺅ اور مالی فوائد کے باعث ان گروپوں کے خلاف کارروائی سے گریزاں ہے۔
کراچی میں غیر قانونی اسلحہ اور گولہ بارود اسمگل کرنے کے کئی راستے ہیں۔ وزارت داخلہ کی رپورٹ کے مطابق شہر میں پھل اور سبزیاں لانے والے ٹرکوں اور ٹرالرز، ریتی بجری کے ٹرکوں، آئل ٹینکرز اور دیگر شہروں سے سامان لانے والے ٹرکوں کے ڈرائیور اسلحے کی اسمگلنگ میں ملوث ہیں۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ہسپتالوں کی ایمبولینس گاڑیاں اور پانی لانے والے ٹینکرز کے ساتھ ساتھ شہروں کے درمیان چلنے والی انٹر سٹی بسیں بھی اسلحے کی اسمگلنگ میں ملوث ہیں۔
رپورٹ میں صوبہء بلوچستان اور صوبہء سندھ سے اسلحہ اسمگل کرنے کی طریقوں، ملوث افراد، گروپوں اور راستوں کو بہت تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صوبہء بلوچستان، جس کی سرحد افغانستان اور ایران سے ملتی ہے، سوویت افغان جنگ کے بعد اب ملک میں غیر قانونی ہتھیاروں کی آمد کا بڑا ذریعہ ہے۔ اس صوبے کی600 کلومیٹر طویل سرحد کراچی سے جیکب آباد تک سندھ سے ملتی ہے۔ یہی راستہ شہر میں غیر قانونی ہتھیاروں کی آمد کا بڑا ذریعہ ہے۔
ان ہتھیاروں کے بڑے خریدار متحارب سیاسی گروپ اور انتہا پسند تنظیمیں ہیں، جنہوں نے ان دنوں بدامنی اور دہشت گردی کے لئے پاکستان کو ہدف بنا رکھا ہے۔ وزارت داخلہ کی رپورٹ کے مطابق کراچی کے علاقے منگھو پیر سے آگے بلوچستان کی سرحد پر شاہ نورانی کا علاقہ بھی غیر قانونی اسلحہ اسمگلروں کا ایک محفوظ مرکز ہے۔ وہاں اسلحہ ذخیرہ کرنے کے ساتھ ساتھ جرائم پیشہ گروہ تاوان کے لئے اغواکئے گئے افراد کو بھی رکھتے ہیں۔ اس علاقے سے اونٹوں پر لکڑیاں لاد کر لائی جاتی ہیں اور اِس آڑ میں اسلحہ کراچی منتقل کیا جاتا ہے۔ اسمگلر اس راستے پر پولیس اور نیم فوجی رینجرز کی چیکنگ نہ ہونے کی وجہ سے اسے محفو ظ تصور کرتے ہیں۔ رپورٹ میں اُن چار راستوں کی نشاندہی نمایاں طور پر کی گئی ہے، جو مہلک ہتھیاروں کی شہر میں آمد کا بڑا ذریعہ ہیں۔
پہلا راستہ چمن، جنگل پیر علی زئی(افغان مہاجر کیمپ) قلعہ عبداﷲ کچلاک، کوئٹہ، سریاب، بولان، سبی، جیکب آباد، شکارپور اور حیدرآباد سے کراچی آتا ہے۔ شہر میں اسلحے کی آمد کا دوسرا راستہ کوئٹہ، بولان، سبی ، ڈیرہ بگٹی، کشمور، کندھ کوٹ، شکارپور، لاڑکانہ ، دادو اور حیدرآباد سے ہوتا ہوا کراچی آتا ہے۔ تیسرا راستہ کوئٹہ، خضدار، ٹھل اور حب سے ہوتا ہوا کراچی پہنچتا ہے۔ شہر میں غیر قانونی ہتھیاروں کی ترسیل کا چوتھا راستہ قلعہ سیف اﷲ سے شروع ہو کر ژوب، ڈیرہ اسماعیل خان، فورٹ منڈو، ڈیرہ غازی خان سے سندھ کے شہر سکھر، حیدرآباد سے کراچی تک ہے۔
سابق گورنر سندھ اور سابق وزیرداخلہ لیفٹننٹ جنرل (ر) معین الدین حیدر کا کہنا ہے کہ ملک کو غیر قانونی اسلحے سے پاک کرنے کی سنجیدہ کوشش کبھی نہیں کی گئی۔ ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ افغان جنگ کے بعد سے پاکستان میں غیرقانونی ہتھیاروں کی فراوانی شروع ہوئی، مختلف حکومتوں نے اس سلسلے میں صرف سیاسی بیانات دئے تاہم حقیقی اقدامات سے گریز کیا گیا۔ جنرل(ر) معین الدین حیدر نے دعوٰی کیا کہ جب وہ وزیرداخلہ تھے، اُن کے اقدامات کی وجہ سے تین لاکھ غیر قانونی ہتھیار جمع کرائے گئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ لاقانونیت بڑھنے کی بڑی وجہ حکومت کے پاس سیاسی عزم کی کمی اور مصلحت پسندی ہے۔ انھوں نے کہا، یہ بات متعلقہ اداروں کے علم میں ہے کہ تمام سیاسی کھلاڑی غیر قانونی ہتھیار جمع کر رہے ہیں۔ سابق وزیرداخلہ نے کہا کہ ان کے دور میں ممنوعہ بور کے ہتھیاروں کا کوئی لائسنس جاری نہیں کیا گیا مگر موجودہ دور حکومت میں اسلحے کے لائسنسوں کے اجراء کا بڑا اسکینڈل سامنے آیا ہے، جس میں بغیر جانچ پڑتال کے رشوت کے عوض ہزاروں لائسنس جاری کئے گئے۔ سیاسی جماعتوں کو چاہیئے کہ وہ ہتھیاروں کی سیاست ترک کر دیں۔
دوسری جانب وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک نے بڑے پیمانے پر ممنوعہ بور کے لائسنسوں کے اجراءکے حوالے سے ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ایسے تمام لائسنس منسوخ کردئے گئے ہیں، جن کے کوائف نامکمل اور مشتبہ تھے جبکہ وزارت داخلہ کے دو اہلکاروں کو بھی گرفتار کیا گیا ہے۔
شہری پولیس لائژن کمیٹی کے سربراہ احمد چنائے کا کہنا ہے کہ شہر میں غیر قانونی ہتھیاروں کی موجودگی کسی بڑے سانحے کا سبب بن سکتی ہے۔ پولیس کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، بصورت دیگر انارکی کو روکنا ہوگا۔ انہوں نے بتایا کہ شہر کے مضافاتی علاقوں میں ناجائز اسلحہ ذخیرہ کیا جا رہا ہے، دوسری طرف با اثر سیاسی شخصیات ممنوعہ بور کے ایک اسلحہ لائسنس کے نمبر کئی ہتھیاروں پر کندہ کروا کر استعمال کر رہے ہیں، جو سنگین جرم ہے۔ احمد چنائے نے کہا کہ کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ کی طرح نادرا سے اسلحہ لائسنس کا بھی کمپیوٹرائزڈ اندراج کرانا انتہائی ضروری ہے۔
اسلحہ اسمگلنگ کے حوالے سے وزارت داخلہ کی رپورٹ میں سرکریک سمیت ان بحری راستوں کی نشاندہی بھی کی گئی ہے، جو انڈیا اور پاکستان کے درمیان متنازعہ علاقے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق سرکریک اور شاہ بندر (پاکستانی علاقہ) کے درمیانی جگہ، جو لائٹ ہاﺅس کے نام سے مشہور ہے، اسلحہ اسمگلنگ اور سرحد پار سے آنے والے ہتھیاروں کی کھیپ کی پہلی منزل ہے۔ کراچی کی دوسری بندرگاہ پورٹ قاسم کے قریب ابراہیم حیدری کے علاقے میں بنی کچی کھاڑیاں اور اطراف کے چھوٹے غیر آباد جزیروں پر بھی یہ ہتھیار جمع کئے جاتے ہیں اور پھر کوسٹ گارڈز کی نظروں سے بچا کر مچھیروں کی چھوٹی کشتیوں کے ذریعے شہر میں منتقل کئے جاتے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق اکثر اوقات غیر قانونی ہتھیاروں کی فروخت کے لئے سپر ہائی وے پر افغان خیمہ بستی اور الآصف اسکوائر خریداروں اور اسمگلروں کی میٹنگ کے مقامات ہیں۔
رپورٹ: رفعت سعید، کراچی
ادارت: امجد علی