کراچی میں پولیس افسر کے گھر پر خود کش حملہ
19 ستمبر 2011کراچی کے سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس چوہدری محمد اسلم کی رہائش گاہ پر خود کش حملے میں چھ پولیس اہلکاروں سمیت کم از کم آٹھ افراد کی ہلاکت کی تصدیق کردی گئی ہے۔ چوہدری محمد اسلم اس حملے میں معجزانہ طور پر بچ گئے۔ دو سویلین ہلاکتوں میں ایک خاتون اور اس کا بیٹا شامل ہیں۔
پولیس حکام کے مطابق خود کش کار بم حملے میں کم از کم تین سو کلو گرام بارودی مواد استعمال کیا گیا۔ حملے کے مقام پر آٹھ فٹ گہرا گڑھا پیدا ہو گیا۔ پولیس افسر کا مکان خاصی تباہی کا شکار ہوا ہے۔ کار بم دھماکے کے بعد چاروں طرف سیمنٹ بلاکوں، ٹوٹی ہوئی کرسیوں، بستروں اور گاڑیوں کے ٹکڑے بکھر گئے۔
طالبان نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ عسکریت پسند تنظیم کے ترجمان احسان اللہ احسان نے نامعلوم مقام سے ٹیلی فون پر نیوز ایجنسی روئٹرز کو بتایا کو مستقبل میں مزید پولیس حکام کو نشانہ بنایا جائے گا۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ چند اہم پولیس اہلکار بھی ان کی ہٹ لسٹ پر ہیں جو ان کے حامیوں کے خلاف ایکشن لے رہے ہیں۔ طالبان کے ترجمان نے کراچی کے پانچ پولیس اہکاروں کے نام بھی بتائے ہیں۔
چوہدری محمد اسلم کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ ان خصوصی پولیس چھاپوں میں شامل تھے جن میں عسکریت پسندوں سے قریبی تعلق والی انتہائی اہم مطلوب مشتبہ افراد کو حراست میں لیا گیا تھا۔ کراچی میں کئی کچی بستیاں جرائم پیشہ افراد کی وجہ سے انتہائی خطرناک تصور کی جاتی ہیں۔ یہ تقریباً ممنوعہ علاقے کی صورت اختیار کرچکی ہیں اور پولیس سمیت دوسرے سکیورٹی ادارے ان کی جانب رخ کرنے کو خطرناک خیال کرتے ہیں۔
چوہدری محمد اسلم نے رپورٹرز کو بتایا کہ انہیں گزشتہ کچھ عرصے سے ایسے لوگوں سے دھمکیاں مل رہی تھیں جن کا تعلق طالبان کے ساتھ تھا اور وہ القاعدہ سے قریبی رابطے رکھتے ہیں۔ اسلم نے مزید بتایا کہ وہ اس حملے سے قطعاً کمزور نہیں ہوئے ہیں بلکہ وہ اب مزید ہمت اور قوت کے ساتھ عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی کریں گے۔
چوہدری محمد اسلم کے ہمسایوں نے علاقے میں امن و سلامتی کی صورت حال پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس حملے سے ان کے خاندان خوف و ہراس کی لپیٹ میں ہیں اور شہر میں سکیورٹی کی صورت حال انتہائی مخدوش ہے۔
رپورٹ: عابد حسین
ادارت: افسر اعوان