کراچی: پینے کا آلودہ پانی، وجہ پرانا نظام
6 دسمبر 2017کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے منیجنگ ڈائریکٹر ہاشم رضا زیدی نے ڈوئچے ویلے سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کراچی میں جتنے بھی پانی کے ذخیرے ہیں، جہاں سے پانی کی فراہمی شروع ہوتی ہے، وہاں پانی کی کوالٹی مقرر کردہ معیار پر پورا اترتی ہے تاہم خرابی وہاں سے شروع ہوتی ہے جب اس پانی کی تقسیم کا عمل شروع ہوتا ہے، ’’پورے شہر میں پانی کی تقسیم کے لیے تقریباﹰ بارہ ہزار کلو میٹر طویل چھوٹے بڑے سائز کے پائپ بچھے ہوئے ہیں۔ یہ پائپ تقریبا پچاس سال پرانے ہیں۔ اب شہر کی آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے اور کئی نئے مکانات بن گئے ہیں۔ ان میں سے اکثر لوگ ہم سے پانی کا کنکشن قانونی طور پر لیتے ہیں، تاہم کئی ایسے چھوٹے علاقے یہاں موجود ہیں جہاں لوگوں نے خود ہی پانی کی لائنوں کو مختلف جگہ سے توڑ کر اس میں سے کنکشن نکالے ہوئے ہیں جو غیر قانونی ہے۔ کیونکہ پانی کی مین لائن زیر زمین ہے، اس لیے اس میں فضلہ بھی شامل ہو جاتا ہے، خاص طور سے ایسی جگہوں پر جہاں سیوریج کی لائنیں بھی گزر رہی ہیں۔‘‘
پاکستان کا شمار ایسے ممالک میں ہوتا ہے جہاں مجموعی قومی آمدنی کا سب سے کم حصہ، صاف پانی کی فراہمی اور نکاسی آب کے لیے خرچ کیا جاتا ہے۔ ایسے میں اگریہ بات سامنے آتی ہے کہ ملک کا معاشی حب سمجھے جانے والے شہر کراچی کو فراہم کیے جانے والے پانی کو دانستہ طور پر آلودہ کیا جا رہا ہے، تو یہ حکومت سمیت تمام متعلقہ اداروں کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔
سندھ میں صاف پانی کی فراہمی اور نکاسی آب کے حوالے سے سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں ایک کیس کی سماعت ہو رہی ہے جو گزشتہ برس سے جاری ہے۔ عدالت نے درخواست گزار شہاب اوستو کی درخواست پر ایک ’’جوڈیشل واٹر کمیشن‘‘ بھی تشکیل دیا تھا ۔ اسی کمیشن نے چار جنوری 2017 کو پاکستان کونسل آف ریسرچ اینڈ واٹر ریسورس (پی سی آر ڈبلیو آر) کو صوبے کے عوام کو فراہم کیے جانے والے پانی کی حیاتیاتی اور کیمیائی جانچ کی ہدایت کی تھی۔ عدالتی کمیشن کی ہدایات کے بعد پی سی آر ڈبلیو نے تحقیقات کے بعد چار مارچ 2017 کو اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ سندھ کے 13 اضلاع میں شہریوں کو فراہم کیے جانے والا پینے کا پانی مضر صحت ہے۔
واٹر بورڈ کے ایم ڈی ہاشم رضا کے مطابق سپریم کورٹ میں پانی کے جن نمونوں کی رپورٹ پیش کی گئی ہے وہ ان جگہوں سے لیے گئے ہیں جہاں سیوریج کا پانی شامل ہونے کی شکایت موجود تھی، ’’ظاہر ہے کہ پھر ایسی جگہ سے لیے گئے پانی کا ٹیسٹ کیا جائے گا تو اس میں فضلہ ملے گا۔ ہم نے سپریم کورٹ میں اس حوالے سے اپنے اعداد و شمار جمع کروائے ہیں جس کے مطابق ہمیں مختلف علاقوں سے آلودہ پانی کی 971 شکایات موصول ہوئی ہیں جن میں سے تقریبا 700 کے قریب شکایات کو دور کیا جا چکا ہے اور باقی پر مرحلہ وار کام کیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ ورلڈ بینک کی جانب سے بھی ایک پروگرام کے سلسلے میں بات چیت کا دور چند مہینوں سے جاری ہے جو اگر کامیاب ہو گیا تو اس کے بعد ہم فراہمی و نکاسی آب کے نظام کی بحالی اور بہتری کے پروگرام پر عمل شروع کریں گے جس کے بعد صورتحال یقیناﹰ مکمل طور پر ٹھیک ہو جائے گی۔‘‘
دوسری جانب ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے پاکستان کونسل آف ریسرچ اینڈ واٹر ریسورس (پی سی آر ڈبلیو آر) کے سینیئر ریسرچ افسر ڈاکٹر غلام مرتضیٰ نے کہا کہ اس ٹیسٹ سے ملنے والے نتائج کے مطابق شہر کو ملنے والا پانی پینے کے قابل ہر گز نہیں، ’’پانی کی جانچ سے سامنے آیا کہ کراچی کو ملنے والے تقریباً 70 فیصد پانی میں مائیکرو بائیالوجیکل آلودگی شامل تھی۔ گو کہ اس میں کسی کیمیکل کی موجودگی کے کوئی شواہد نہیں ملے تاہم مائیکرو بائیالوجیکل آلودگی بھی انسانی صحت کے لیے مضر ہے۔ اس آلودگی میں 30 فیصد تک فضلے کے ذرات بھی پائے گئے۔ اس کے علاوہ اس میں E.Coli نامی وائرس بھی پایا گیا۔‘‘
یاد رہے کہ اب سے چند ماہ قبل بھی جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ عالمی ادارہ صحت کے معیار کے مطابق پاکستان کی صرف 15 فیصد آبادی کو پینےکا صاف پانی ملتا ہے۔ اس کے علاوہ واٹر ایڈ پاکستان کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں 16 ملین افراد کو صاف اور محفوظ پانی تک رسائی حاصل نہیں۔