کراچی: کیمیکل فیکٹری میں آتش زدگی، کم از کم 16 افراد ہلاک
27 اگست 2021آتش زدگی کا یہ واقعہ کراچی کے گنجان آباد علاقے مہران ٹاؤن میں پیش آیا۔ فی الحال آگ لگنے کی وجوہات نہیں بتائی گئیں۔
مقامی میڈیا اور سوشل میڈیا پر سامنے آنے والی فوٹیج میں دیکھا گیا ہے کہ فائر برگیڈ کا عملہ آگ بجھانے کی کوششوں میں مصروف ہے جب کہ درجنوں ایمبولینسیں متاثرین کو ہسپتال منتقل کر رہی ہیں۔
جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کے مطابق متاثرہ کیمیکل فیکٹری میں آتش زدگی کے وقت کم از کم بیس مزدور موجود تھے۔
صوبہ سندھ کی حکومت کے ترجمان مرتضیٰ وہاب نے صحافیوں کو بتایا کہ فائر برگیڈ کا عملہ آگ پر مکمل قابو پا چکا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت نے حکام کو آتش زدگی کی وجوہات جاننے کے لیے تفتیش کرنے کے احکامات جاری کر دیے ہیں۔
صوبائی حکومت کے ترجمان کا یہ بھی کہنا تھا کہ حکام سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ اپنی تحقیقات میں اس بات کا جائزہ بھی لیں کہ آیا فیکٹری مالک نے آگ بجھانے کے لیے درکار آلات نصب کر رکھے تھے۔
پاکستان میں فیکٹریوں میں ناقص حفاظتی انتظامات کے باعث ماضی میں بھی آتش زدگی کے واقعات پیش آتے رہے ہیں۔ سن 2015 میں لاہور کی ایک فیکٹری میں آگ لگنے سے 30 افراد ہلاک ہو گئے تھے جب کہسن 2012 میں کراچی ہی کی ایک علی انٹرپرائز نامی ٹیکسٹائل فیکٹری میں آتش زدگی کے نتیجے میں 250 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔
سوشل میڈیا پر پاکستانی صارفین اس واقعے پر غم و غصے کا اظہا کر رہے ہیں۔ شبانہ شوکت نے ٹویٹ میں لکھا، ’’آگ دس بجے لگی، فائر برگیڈ کے پہنچنے میں تاخیر کی وجہ سے بہت نقصان ہوا۔ کمروں کی کھڑکیوں پر گرل اور آگے سامان رکھے جانے کی وجہ سے سانحہ سنگین ہو گیا۔‘‘
ثمرہ طارق نامی ایک صارفہ نے سندھ میں برسر اقتدار پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے لکھا، ’’اس موقعے پر سیاست کرنا مناسب نہیں لیکن جس پاکستان پیپلز پارٹی کو آگ بجھانے کے لیے وزیر اعظم عمران خان کی فراہم کردہ فائر برگیڈ استعمال کرنا پڑی، وہ پاکستان کو بحران سے نکال سکے گی؟‘‘
بینا خالد شمیم نے ملکی وزیر اعظم عمران خان پر تنقید کرتے ہوئے لکھا، ’’وزیر اعظم صاحب روشن گھر کی تقریب سے خطاب کر رہے ہیں مگر افسوس کراچی کی کیمیکل فیکٹری میں لگی آگ پر دکھ، رنج کا کوئی ایک جملہ تک ادا نہیں کیا۔‘‘
ش ح/ ع ا (اے پی، ڈی پی اے)