کراچی کے حالات کون ٹھیک کرے گا ؟
30 اگست 2013سپریم کورٹ نے دو سال قبل واضح احکامات دیے تھے کہ کراچی میں موجود سیاسی جماعتوں کے مسلح ونگ ختم کیے جائیں لیکن ان پر اب تک عمل نہیں ہوا۔ تین روز قبل چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے اپنے پرانے فیصلے پر عملدرآمد سے متعلق سماعت کا آغاز کیا تو اٹارنی جنرل منیر اے ملک نے کہا کہ کراچی میں مہاجر ریپبلکن آرمی نامی تنظیم فعال ہے۔ سماعت کے دوران کراچی میں جنوبی زون کے ڈی آئی جی ڈاکٹر امیر شیخ نے عدالت میں کہا کہ انیس سو ننانوےکےآپریشن میں حصہ لینے والے تمام پولیس افسر قتل ہوچکے ہیں لہذا ان کے ماتحت افسران کوئی بھی کارروائی کرنے سے خوفزدہ ہیں۔ ڈی آئی جی نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ اگر پولیس ایم کیو ایم اور سنی تحریک کے کارکنوں کو پکڑتی ہے تو شہر میں آگ لگادی جاتی ہے۔ ایم کیو ایم کے مرکزی رہنما ڈاکٹر فاروق ستار نے مہاجر ری پبلکن آرمی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ایم کیو ایم پر لگائے جانے والا الزامات نئے نہیں ہیں او ان میں کوئی صداقت نہیں ہے۔
سینئر تجزیہ کار اور معروف صحافی مظہر عباس نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ جیسے انیس سو بیانوے میں جناح پور کے بے بنیاد الزام کے تحت صرف مخصوص گروپ کے خلاف کارروائی کی گئی تھی اس طرح اب مہاجر ریپبلکن آرمی کے غبارے میں ہوا بھرنے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ مطلوبہ مقاصد حاصل کیے جا سکیں۔
کراچی کی صورت حال پر گہری نظر رکھنے والے وفاقی اردو یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغ عامہ کے چئیرمین اور معروف تجزیہ کار پروفیسر توصیف نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ کراچی کا مسئلہ ہر گزرتے دن کے ساتھ سنگین ہوتا جارہا ہے۔ پروفیسر توصیف نے دو روز قبل ایک تاجر کو تاوان کے لیے اغوا کرنے والے نیول انٹیلیجنس کے اہلکار کی گرفتاری کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ سول اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کراچی کے مسئلہ کا حل تلاش کرنے کے بجائے صورت حال سے لطف اندوز ہورہی ہیں۔ ان کے مطابق صورت حال اس لیے بھی مزید خراب ہورہی ہے کہ فوجی بیوروکریسی وزیر اعلیٰ سندھ کو عملاﹰ حکمران تسلیم کرنے کو تیار نہیں، لہذا اسٹیٹ ود ان اسٹیٹ وجود میں آچکی ہے۔
پروفیسر توصیف کہتے ہیں کہ خود رینجرز کے اہلکار، قتل، اغوا اور چوری کی وارداتوں میں ملوث ہوچکے ہیں، ایسی صورت میں رینجرز کیسے شہر میں امن قائم کرسکتی ہے؟
گزشتہ روز سپریم کورٹ نے کراچی پورٹ سے افغانستان میں نیٹو کے لیے سامان لے کر نکلنے والے انیس ہزار کنٹینرز کا بھی ذکر کیا تھا۔ آج سماعت کے دوران ڈی جی رینجرز سندھ میجر جنرل رضوان اختر نے عدالت کو بتایا کہ انیس ہزار کنٹینرز کا غائب ہونا سابقہ دور حکومت کی بات ہے اور یہ کنٹینرز ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر برائے بندرگاہ و جہاز رانی بابر خان غوری کی نگرانی میں پورٹ سے نکلے تھے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی اشرف خان کہتے ہیں کہ کراچی کا مسئلہ بہت پیچیدہ صورت اختیار کرچکا ہے اور اس کا واحد حل جرائم پیشہ افراد کے خلاف بلاتفریق کارروائی ہی سے ممکن ہے۔ اشرف خان کے مطابق سیاسی جماعتیں بھی یہ بات سمجھ چکی ہیں کہ ان کی صفوں میں گھسنے والے جرائم پیشہ افراد نے نہ صرف کراچی بلکہ خود ان جماعتوں کے لیے بھی نقصان کا باعث ہیں لہذا ہر جماعت آپریشن یا محدود آپریشن کی صدائیں بلند کررہی ہے۔