1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کراچی کے حالات کون ٹھیک کرے گا ؟

رفعت سعید، کراچی30 اگست 2013

پاکستانی اٹارنی جنرل منیر اے ملک نے کہا کہ کراچی میں مہاجر ریپبلکن آرمی نامی تنظیم فعال ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق سیاسی جماعتوں کے مسلح ونگ بھی فعال ہیں اور سکیورٹی اہلکار بھی قتل، اغوا اور چوری کی وارداتوں میں ملوث ہیں۔

https://p.dw.com/p/19Z96
تصویر: REUTERS

سپریم کورٹ نے دو سال قبل واضح احکامات دیے تھے کہ کراچی میں موجود سیاسی جماعتوں کے مسلح ونگ ختم کیے جائیں لیکن ان پر اب تک عمل نہیں ہوا۔ تین روز قبل چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے اپنے پرانے فیصلے پر عملدرآمد سے متعلق سماعت کا آغاز کیا تو اٹارنی جنرل منیر اے ملک نے کہا کہ کراچی میں مہاجر ریپبلکن آرمی نامی تنظیم فعال ہے۔ سماعت کے دوران کراچی میں جنوبی زون کے ڈی آئی جی ڈاکٹر امیر شیخ نے عدالت میں کہا کہ انیس سو ننانوےکےآپریشن میں حصہ لینے والے تمام پولیس افسر قتل ہوچکے ہیں لہذا ان کے ماتحت افسران کوئی بھی کارروائی کرنے سے خوفزدہ ہیں۔ ڈی آئی جی نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ اگر پولیس ایم کیو ایم اور سنی تحریک کے کارکنوں کو پکڑتی ہے تو شہر میں آگ لگادی جاتی ہے۔ ایم کیو ایم کے مرکزی رہنما ڈاکٹر فاروق ستار نے مہاجر ری پبلکن آرمی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ایم کیو ایم پر لگائے جانے والا الزامات نئے نہیں ہیں او ان میں کوئی صداقت نہیں ہے۔

Bombenanschlag Karatschi Pakistan
تصویر: STR/AFP/Getty Images

سینئر تجزیہ کار اور معروف صحافی مظہر عباس نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ جیسے انیس سو بیانوے میں جناح پور کے بے بنیاد الزام کے تحت صرف مخصوص گروپ کے خلاف کارروائی کی گئی تھی اس طرح اب مہاجر ریپبلکن آرمی کے غبارے میں ہوا بھرنے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ مطلوبہ مقاصد حاصل کیے جا سکیں۔

کراچی کی صورت حال پر گہری نظر رکھنے والے وفاقی اردو یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغ عامہ کے چئیرمین اور معروف تجزیہ کار پروفیسر توصیف نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ کراچی کا مسئلہ ہر گزرتے دن کے ساتھ سنگین ہوتا جارہا ہے۔ پروفیسر توصیف نے دو روز قبل ایک تاجر کو تاوان کے لیے اغوا کرنے والے نیول انٹیلیجنس کے اہلکار کی گرفتاری کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ سول اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کراچی کے مسئلہ کا حل تلاش کرنے کے بجائے صورت حال سے لطف اندوز ہورہی ہیں۔ ان کے مطابق صورت حال اس لیے بھی مزید خراب ہورہی ہے کہ فوجی بیوروکریسی وزیر اعلیٰ سندھ کو عملاﹰ حکمران تسلیم کرنے کو تیار نہیں، لہذا اسٹیٹ ود ان اسٹیٹ وجود میں آچکی ہے۔

پروفیسر توصیف کہتے ہیں کہ خود رینجرز کے اہلکار، قتل، اغوا اور چوری کی وارداتوں میں ملوث ہوچکے ہیں، ایسی صورت میں رینجرز کیسے شہر میں امن قائم کرسکتی ہے؟

گزشتہ روز سپریم کورٹ نے کراچی پورٹ سے افغانستان میں نیٹو کے لیے سامان لے کر نکلنے والے انیس ہزار کنٹینرز کا بھی ذکر کیا تھا۔ آج سماعت کے دوران ڈی جی رینجرز سندھ میجر جنرل رضوان اختر نے عدالت کو بتایا کہ انیس ہزار کنٹینرز کا غائب ہونا سابقہ دور حکومت کی بات ہے اور یہ کنٹینرز ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر برائے بندرگاہ و جہاز رانی بابر خان غوری کی نگرانی میں پورٹ سے نکلے تھے۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی اشرف خان کہتے ہیں کہ کراچی کا مسئلہ بہت پیچیدہ صورت اختیار کرچکا ہے اور اس کا واحد حل جرائم پیشہ افراد کے خلاف بلاتفریق کارروائی ہی سے ممکن ہے۔ اشرف خان کے مطابق سیاسی جماعتیں بھی یہ بات سمجھ چکی ہیں کہ ان کی صفوں میں گھسنے والے جرائم پیشہ افراد نے نہ صرف کراچی بلکہ خود ان جماعتوں کے لیے بھی نقصان کا باعث ہیں لہذا ہر جماعت آپریشن یا محدود آپریشن کی صدائیں بلند کررہی ہے۔