کراچی گوئٹے انسٹیٹیوٹ کی بھرپور ثقافتی سرگرمیاں
1 نومبر 2013شمیم منظر نہ صرف کراچی میں گوئٹے انسٹیٹیوٹ میں جرمن زبان کے کورسز کی نگرانی کرتے ہیں بلکہ پاکستان بھر میں مختلف تعلیمی اداروں اور مراکز میں جاری کورسز کا انتظام و انصرام بھی اُن کی ذمے داریوں میں شامل ہے۔ ساتھ ساتھ وہ کراچی میں گوئٹے انسٹیٹیوٹ کی عمارت میں باقاعدگی سے ادبی اور ثقافتی سرگرمیوں کا بھی اہتمام کرتے رہتے ہیں۔
اس سوال کے جواب میں کہ ایک عرصے سے پُر تشدد سرگرمیوں کی لپیٹ میں آئے ہوئے کراچی میں ادبی اور ثقافتی سرگرمیوں کی گنجائش کیسے نکل آتی ہے، شمیم منظر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا:’’پچھلے پانچ برسوں سے کراچی میں مسلسل پیش آنے والے پُر تشدد واقعات کا کچھ نہ کچھ اثر تو ضرور ہوا ہے۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ادبی سرگرمیاں ویسے ہی ہیں، جیسے پانچ سال پہلے ہوا کرتی تھیں۔ اس کے باوجود کراچی آرٹس کونسل میں بھی پروگرام ہوتے رہتے ہیں اور گوئٹے انسٹیٹیوٹ میں بھی ماہانہ ادبی نشست باقاعدگی سے ہو رہی ہے۔ جن لوگوں کو شوق ہے، وہ اس میں شرکت بھی کرتے رہتے ہیں۔‘‘
شمیم منظر صاحب سے جب یہ پوچھا گیا کہ شہر کے دیگر ادبی اور ثقافتی پروگراموں کے مقابلے میں اُن کے ادارے گوئٹے انسٹیٹیوٹ کی سرگرمیاں کس حد تک مختلف ہیں، تو اُن کا کہنا تھا:’’گوئٹے انسٹیٹیوٹ کا دراصل مقصد یہ ہے کہ وہ جرمن ادب کے ساتھ ساتھ پاکستانی ادب کو بھی فروغ دے چنانچہ ہم اپنی ماہانہ ادبی نشست میں دو طرح کی تخلیقات پیش کرتے ہیں۔ ایک تو کوئی پاکستانی تخلیق ہوتی ہے جبکہ دوسری کوئی جرمن تخلیق ہوتی ہے، جسے ہم جرمن ترجمے کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔‘‘
اُنہوں نے بتایا کہ اس ادبی نشست میں جرمن ادبی تخلیقات کے ساتھ ساتھ جرمن ادیبوں کو بھی متعارف کروایا جاتا ہے۔ شمیم منظر کے مطابق شروع شروع میں جرمن افسانے اور شاعری ان نشستوں کے شرکاء کو خاصی اجنبی لگتی تھی تاہم وقت کے ساتھ ساتھ وہ ان تحریروں کو سمجھنے لگے ہیں۔ اب وہ پاکستانی اور جرمن تحریروں کا موازنہ کرتے ہوئے یہ جانچنے کی بھی کوشش کرتے ہیں کہ دونوں طرح کی تحریروں میں کون کون سی چیزیں ایک دوسرے سے مختلف ہیں اور کہاں کہاں اُن میں قدرِ مشترک پائی جاتی ہے۔ شمیم منظر کے مطابق ان نشستوں میں کم از کم چالیس تا پچاس لوگ شریک ہوتے ہیں، جن کی بڑی تعداد شاعروں اور ادیبوں پر مشتمل ہوتی ہے۔
شمیم منظر خود بھی جرمن ادبی تحریروں کو اردو کے قالب میں ڈھالتے رہتے ہیں۔ اُنہوں نے بتایا کہ 2010ء میں اُنہوں نے جرمن کلاسیکی ادیب فریڈرش شلر کے ڈرامے ’لٹیرے‘ کا ترجمہ کیا، جسے گوئٹے انسٹیٹیوٹ نے شائع بھی کیا اور جسے اسٹیج پر بھی پیش کیا گیا۔ اسی طرح کلاسیکی جرمن ادیب ہائنرش فان کلائسٹ کے ایک ڈرامے کو 2012ء میں ’ٹوٹا ہوا جگ‘ کے نام سے اردو میں ترجمہ کر کے اسٹیج پر پیش کیا گیا۔
شمیم منظر کے مطابق 2012ء ہی میں گوئٹے انسٹیٹیوٹ کراچی نے ممتاز پاکستانی شاعر فیض احمد فیض کی پچاس نظموں کو جرمن زبان میں منتقل کر کے شائع کیا۔ یہ تراجم شمیم منظر کے ساتھ ساتھ تب کراچی میں اس جرمن ادارے کے ڈائریکٹر ڈاکٹر مارکُس لِٹس نے مل کر کیے تھے۔
شمیم منظر کے مطابق گوئٹے انسٹیٹیوٹ کی ادبی اور ثقافتی محافل میں نہ صرف جرمنی سے فنکاروں کو مدعو کیا جاتا ہے بلکہ گاہے بگاہے پاکستانی فنکاروں کو بھی اپنے فن کے مظاہرے کے لیے جرمنی بھیجا جاتا ہے۔
اپنے اس انٹرویو میں شمیم منظر نے جرمن وزارتِ خارجہ کی طرف سے شروع کیے گئے ’پارٹنر اسکول‘ نامی اُس خصوصی منصوبے کی بھی تفصیلات بتائیں، جس کے تحت گزشتہ چار برسوں سے پاکستان بھر کے نو عدد تعلیمی اداروں میں پانچویں، چھٹی اور ساتویں کلاسوں کے کوئی چار ہزار طلبہ جرمن زبان سیکھ رہے ہیں۔