کرزئی نے طالبان سے مذاکرات کے لئے کمیٹی قائم کر دی
5 ستمبر 2010صدارتی دفتر سے جاری اعلامئے میں اس کمیٹی کو امن کی جانب ایک اہم قدم قرار دیا گیا ہے۔ رواں برس جون میں قبائلی رہنما بھی عسکریت پسندوں کو مصالحتی عمل میں شامل کرنے کی توثیق کر چکے ہیں۔
افغانستان میں 2001ء میں ہونے والے امریکی حملے کے بعد طالبان کو اقتدار سے بے دخل کر دیا گیا تھا اور وہ تب سے ہی امریکی حمایت سے قائم کابل حکومت کو گرانے اور افغانستان سے غیرملکی فوجیوں کو نکالنے کے لئے پرتشدد کارروائیوں میں لگے ہیں۔
تقریباﹰ ایک دہائی سے چلی آ رہی افغان جنگ کے تناظر میں بین الاقوامی برادری بھی طالبان کے ساتھ بات چیت کے حق میں دکھائی دیتی ہے جبکہ امریکی صدر باراک اوباما پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ آئندہ برس سے افغانستان سے امریکی افواج کا انخلاء شروع ہو جائے گا۔
بتایا جاتا ہے کہ طالبان سے مذاکرات کے لئے قائم کردہ کمیٹی میں افغانستان کے تمام مکاتب فکر کو نمائندگی حاصل ہو گی۔ اس حوالے سے ارکان کی فہرست کو حتمی شکل بھی دے دی گئی ہے۔ اس کونسل میں تشدد کا راستہ ترک کرنے والے سابق طالبان اور خواتین کو بھی شامل کیا گیا ہے۔
ادھر طالبان رہنما افغان حکومت کی طرف سے کی جانے والی امن کوششوں کو مسترد کرتے رہے ہیں۔ طالبان کا کہنا ہے کہ افغانستان میں غیرملکی افواج کی موجودگی تک امن مذاکرات ممکن نہیں۔
دوسری جانب گزشتہ کچھ عرصے سے افغانستان میں طالبان کے حملوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ منگل کو پانچ امریکی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد اس سال افغانستان میں اب تک 485 فوجی ہلاک ہو گئے ہیں۔ وہاں تقریباﹰ ڈیڑھ لاکھ اتحادی فوجی تعینات ہیں۔
رپورٹ: ندیم گِل
ادارت: عاطف توقیر