’کرنسی نوٹ ‘ احتجاج کا نیا انداز
8 جنوری 2010عوام میں غیر مقبول حکومتوں کو قلم اور افکار کی وجہ سے لاحق خطرات کے بارے میں تو شاید آپ نے سنا ہی ہو گا، مگر ایرانی حکومت کو اِن دنوں ایک اور طرح کے دشمن کا سامنا ہے، وہ ہے کاغذ۔ اپوزیشن کی سبز تحریک کرنسی کو حکومت مخالف احتجاج کے لئے استعمال کر رہی ہے۔ اس تحریک کوکچلنے کے لئے حکومت اور ایران کے مرکزی بینک نے کیا اقدامات بھی کر رہی ہے۔
سیاسی نعروں اور علامتی نشانات والے نوٹوں نے تہران حکومت اور مرکزی بینک کو پریشان کر رکھا ہے۔ بینک کے مطابق ایسے نوٹ نہ لئے جائیں جن پرکوئی عبارت تحریر ہو یا کوئی تصویر بنی ہو۔ تاہم بینک کو ایسے نوٹ واپس کرنے کے لئے دی جانے والی مدت ختم ہو چکی ہے۔ حکومت کی جانب سے دی گئی اس ڈیڈ لائن کو کتنی سنجیدگی سے لیا گیا ؟ تہران میں ایک دکاندار ابراہیم عصمتی نے بہت ہی مطمئن انداز میں اس کا جواب یہ دیا۔ ان کے مطابق انہوں نے اس حکومتی میعاد کے بارے میں سنا تو ہے لیکن ایسے نوٹ واپس بھی کرنے ہیں، اس پر زیادہ توجہ نہیں دی۔ ان کا تاثر یہ ہے کہ زیادہ تر لوگوں نے اس ڈیڈلائن کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔
ایرانی اپوزیشن کو عوام سے اسی رویے کی امید تھی۔ اس کے خیال میں اپنی آواز دوسروں تک پہنچانے کا یہ طریقہ کامیاب رہا ہے۔ گزشتہ برس جولائی کے متنازعہ صدارتی انتخابات کے بعد سے ملک میں ایسے نوٹوں کی گردش میں اضافہ ہوگیا تھا۔ عوامی حلقوں کا خیال ہے کہ اخبارات، ویب سائٹس اور دیگر ذرائع ابلاغ پر تو سنسر لگایا جا سکتا ہے لیکن اس طریقہء احتجاج کو روکنا ممکن نہیں ہے۔
ایرانی پارلیمان کے قدامت پسند اراکین اس بارے میں مرکزی بینک کے اقدام کی تائید کر رہے ہیں۔ صدر احمدی نژاد کے حامی ایک رکن پارلیمان کا کہنا ہےکہ حکومت مخالف تحریوں اورعلامتی نشانات والے نوٹ ایران میں امن و سلامتی کے ستونوں کو ہلا سکتے ہیں۔ ایک ایرانی خاتون نے کہا کہ وہ ان نوٹون کے بدلے بینک سے نئے نوٹ لینے کے بارے میں سوچ بھی نہیں رہیں۔
کرنسی نوٹوں پراحتجاجی الفاظ لکھنےکے لئے اپوزیشن کے حامیوں نےسبز رنگ استعمال کیا ہے، جو ان کی تحریک کا رنگ ہے۔ مثال کے طور پرایسے نوٹوں پر تحریر ہے: ’ایرانی عوام انصاف چاہتے ہیں‘ اور ’آزادی زندہ باد‘ جبکہ کچھ نوٹوں پرندا آغا سلطانی کی تصاویر بھی چسپاں ہیں۔ ندا گزشتہ برس ایک حکومت مخالف مظاہرے کے دوران گولی لگنے سے ہلاک ہوگئی تھیں۔
اس احتجاج کو روکنے کے لئے تہران حکومت جو اقدامات کر رہی ہے، کیا وہ دانشمندانہ ہیں؟ کیا ان کے مثبت نتائج سامنے آئیں گے؟ اس حوالے سے تنقیدی سوچ کے حامل بہت سے عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ قلم اورافکار پرتو کسی نہ کسی شکل میں پابندی لگانے کی کوشش کی جا سکتی ہے لیکن اگر کاغذ کسی کا دشمن ہو جائے تو اسے روکنا ممکن نہیں ہوتا۔
رپورٹ: عدنان اسحاق
ادارت: مقبول ملک