کرنسی نوٹ تبدیل کرانے کا آخری دن، بینکوں کے سامنے قطاریں
30 دسمبر 2016مودی نے گزشتہ مہینے غیر متوقع طور پر یہ اعلان کیا تھا کہ تیس دسمبر تک نہ بدلوائے جانے والے پانچ سو اور ایک ہزار روپے کے کرنسی نوٹ اپنی قدر و قیمت سے محروم ہو جائیں گے۔ اب تک بھارت میں جتنی کرنسی گردش میں ہے، اُس کا چھیاسی فیصد اس مالیت کے کرنسی نوٹوں پر مشتمل ہے اور ان کرنسی نوٹوں کی مجموعی مالیت 256 ارب ڈالر کے برابر بنتی ہے۔
نئی دہلی سے نیوز ایجنسی روئٹرز کے ایک جائزے کے مطابق اس غیر متوقع اعلان نے بھارت بھر میں کروڑوں انسانوں کا نظام زندگی درہم برہم کر کے رکھ دیا۔ بھارتی دارالحکومت میں ایک بینک کے باہر کھڑے راکیش کمار نے روئٹرز کو بتایا:’’مَیں ڈیڈ لائن گزرنے سے پہلے پہلے کچھ پرانے کرنسی نوٹ جمع کروانے کے لیے آیا ہوں لیکن میں توقع کرتا ہوں کہ حکومت اور مرکزی بینک جلد از جلد نئے کرنسی نوٹ بینکوں اور اے ٹی ایم مشینوں میں پہنچا دیں گے تاکہ ہم اُنہیں بغیر کسی مشکل کے نکلوا سکیں۔‘‘
بینکنگ کے شعبے میں ٹیکنالوجی فراہم کرنے والی ایک کمپنی فیڈیلٹی انفارمیشن سروسز کے بھارت اور جنوبی ایشیا کے لیے مینیجنگ ڈائریکٹر راماسوامی وینکٹاچالم کے مطابق نئی کرنسی سرِدست محض پینتیس تا چالیس فیصد اے ٹی ایم مشینوں سے ہی مل پا رہی ہے۔
مودی حکومت نے یقین دلایا تھا کہ اس اعلان سے پیدا ہونے والی ابتری پر جلد از جلد قابو پا لیا جائے گا اور پچاس روز کے اندر اندر حالات معمول پر آ جائیں گے۔ دوسری طرف ماہرین کا کہنا یہ ہے کہ نہ صرف حالات کو معمول پر آنے میں کم از کم چھ مہینے لگ جائیں گے بلکہ اس حکومتی اقدام کا نتیجہ اقتصادی ترقی کی شرح میں کمی، ملازمتوں کے مواقع سے محرومی اور اَشیائے صرف کی مانگ میں کمی کی صورت میں برآمد ہو گا۔
نئی دہلی میں اقتصادی پالیسی سے متعلق ایک گروپ آر پی جی فاؤنڈیشن کے صدر ڈی ایچ پائی پاننڈیکر نے کہا کہ جہاں سال کی پہلی ششماہی میں اقتصادی ترقی کی شرح اوسطاً 7.2 فیصد رہی تھی، وہاں دوسری ششماہی میں یہ کم ہو کر محض 6.5 فیصد رہ جائے گی۔ مزید یہ کہ بہت سے شعبوں میں، جہاں خاص طور پر غریب لوگ کام کرتے ہیں، ملازمتوں کے مواقع ختم ہو جائیں گے۔
جمعرات کو بھارتی جریدے ’انڈیا ٹو ڈے‘ کے ساتھ اپنے ایک انٹرویو میں وزیر اعظم نریندر مودی نے اس امید کا اظہار کیا کہ اس فیصلے سے معیشت ترقی کرے گی اور بہت سے طویل المدتی فوائد حاصل ہو سکیں گے کیونکہ اس سے زیر زمین بلیک مارکیٹ یا متوازی معیشت منظرِ عام پر آنے پر مجبور ہو جائے گی۔
مودی کا کہنا تھا کہ یہ قدم ملک سے بدعنوانی کے خاتمے کے لیے اور اُن مالی ذرائع کے خاتمے کے لیے اٹھایا گیا ہے، جہاں سے عسکریت پسندوں کو بھارتی سرزمین پر حملوں کے لیے پیسے ملتے تھے۔
ہفتہ وار جریدے اکنامک اینڈ پولیٹیکل ویکلی کے ایڈیٹر پرنجوائے گوہا ٹھاکرتا کے مطابق اس امر کے واضح شواہد نظر آ رہے ہیں کہ اس حکومتی اقدام کے باعث اقتصادی سرگرمیوں میں کمی واقع ہوئی ہے:’’وزیر اعظم کو اپنے اس اقدام کو جائز ثابت کرنے کے مشکل مرحلے کا سامنا کرنا ہی پڑے گا۔‘‘