کرونا وائرس: خاموشی کے ساتھ نکاح کر کے دلہنوں کی رخصتی
14 مارچ 2020ہفتے کا دن ان پابندیوں کا پہلا دن تھا اور اس روز لاہور میں شادی کی تقریبات کے لیے پہنچنے والوں کو بتایا گیا کہ شادی ہال بھی فوری طور پر بند کر دیے گئے ہیں اور پکایا گیا کھانا بھی استعمال نہیں ہو سکا۔ شادیوں کی بعض تقریبات کے لیے مردوں کو مساجد منتقل کیا گیا اور خواتین کو گھروں کی چھتوں پر منتقل کرتے ہوئے دور کے مہمانوں سے معذرت کر لی گئی۔
محمد اشرف نامی ایک شہری کی بیٹی کی شادی پاکستان ریلوے کے ایک گراونڈ میں چند دنوں بعد ہونے والی تھی، انہیں پابندی کا پتہ چلا تو وہ بہت پریشان ہوئے۔ اب رش کی وجہ سے پانچ اپریل کے بعد کی تاریخ بھی نہیں مل رہی۔ نجمہ نامی ایک خاتون نے بتایا کہ تنگ گلیوں میں رہنے والے لوگ اب شادی بیاہ کی تقریب کے لیے کہاں جائیں ؟ ''حکومت چالیس پچاس لوگوں پر مشتمل چھوٹا فنگشن کرنے کی محدود مدت تک تو اجازت دے دیتی،کسی حکومتی شخصیت کو اس بات کا ادراک تک نہیں ہے کہ بیٹیوں کی شادیاں گھر والوں کے لیے کتنا اہم اور عزت کا معاملہ ہوتا ہے۔‘‘
کیٹرنگ کے کاروبار سے وابستہ نیامت قادری نے بتایا کہ لاہور کے ایکسپو سینٹر میں ایک کاروباری ادارے نے چار ہزار افراد کے لئے کھانا تیار کروایا تھا۔ دیگیں پہنچنے پر انتظامیہ کی طرف سے بتایا گیا کہ یہ کھانا نہیں ہو سکتا، ''آج روزانہ اجرت پر کام کرنے والے ویٹرز کو بھی خالی ہاتھ جانا پڑا۔ ‘‘
ضلعی انتظامیہ کی طرف سے شہر کے مختلف علاقوں میں اجتماعات پر پابندی کے فیصلے کے نفاذ کے لیے چھاپے بھی مارے جاتے رہے۔لاہور میں اسلام پورا کے ایک علاقے میں ایک بیوہ عورت کی بیٹی کی شادی پر بینڈ باجے واپس بھجوا کر باراتیوں کو مختلف گھروں کی بیٹھکوں میں بٹھا کر خاموشی کے ساتھ نکاح کر کے دلہن کو رخصت کیا گیا۔
ملک کے تمام تعلیمی ادارے، دینی مدارس، تعلیمی اکیڈمیاں اور ٹویشن سینٹرز بھی بند کر دیے گئے ہیں۔ طلحہ نامی ایک نوجوان نے بتایا کہ امتحانی داخلے بھجوانے کی آخری تاریخ قریب ہے لیکن کچھ پتہ نہیں اب کیا ہوگا؟ ایک نجی سکول کی ہیڈ مسٹریس مسز شبانہ شاہد نے بتایا کہ کیمرج کے امتحانات سے پہلے والا یہ وقت طلبہ کی تیاری کے لیے بہت اہم تھا،اب پتہ نہیں کیا بنے گا؟ ایک یونیورسٹی کے طالبعلم محمد ادریس نے بتایا کہ سمیسٹر سسٹم میں بحرانی چھٹیوں کے تین ہفتوں کا نقصان پورا کرنا بہت مشکل ہو گا۔ ملک کی کئی یونیورسٹیوں میں پہلے سے طے شدہ عالمی کانفرنسوں کو بھی منسوخ کر دیا گیا ہے۔
الحمرا آرٹس سینٹر میں معروف استاد اور دانشور ڈاکٹر فیصل کمال حیدری کی شاعری کی تازہ کتاب 'قول فیصل‘ کی تقریب رونمائی تھی، بعض مہمانوں کو وہاں پہنچنے پر معلوم ہوا کہ الحمرا آرٹس سینٹر کے تمام ہالز میں ڈراموں، کمرشل تھیٹرز سمیت ہر طرح کی تقریبات پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس میں بھی کلاسیں بند کروا دی گئی ہیں۔
تاہم عدالتیں کھلی ہیں اور وہاں سائلوں کا رش دکھائی دیا، لیکن پنجاب میں قیدیوں کے ساتھ ملاقاتوں پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ ریلوے اسٹیشن پر بھی مسافروں کی رونق دیکھنے میں آئی، بسوں کے مالکان کو کہا گیا ہے کہ وہ اپنی سیٹوں کے مطابق سواریاں بٹھائیں لیکن کھڑے ہو کر سفر کرنے کی اجازت نہ ہو گی۔ لاہور کراچی اور اسلام آباد کے سوا باقی تمام ہوائی اڈوں کو بین الاقوامی پروازوں کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔
کورونا وائرس کا مسئلہ کھیلوں کے میدانوں کو بھی ویران کر گیا ہے۔ کئی غیر ملکی کھلاڑی واپس اپنے ملکوں کو لوٹ چکے ہیں۔ میچ تماشائیوں کے بغیر کھیلے جا رہے ہیں، شنید یہی ہے کہ پی ایس ایل کا فائنل میچ بھی خالی کرسیاں ہی دیکھ پائیں گی۔ شہری اپنے ٹکٹ ریفنڈ کروانے کے لیے ایک کوریئر کمپنی کے دفاتر میں رابطہ کر رہے ہیں۔ پاکستان ریلوے نے اس ماہ کے آخر میں ہونے والی اپنی سالانہ کھیلوں کو ملتوی کر دیا ہے۔
احتیاطی اقدامات کے طور پر وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ کے متعدد پراجیکٹس بشمول مال روڈ، سفاری پارک اور جلو پارک کے تمام چڑیا گھروں کو سیاحوں کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔ پنجاب حکومت کے دیگر دفاتر کے بعد اب ہفتے کے روز سیف سٹی پروجیکٹ میں بھی ملازمین کو بائیو میٹرک حاضری سے روک دیا گیا ہے۔
اگرچہ ملک بھر میں کورونا وائرس کے شکار افراد کی تعداد اٹھائیس تک پہنچ چکی ہے لیکن پنجاب میں حکومت کا دعوی ہے کہ یہاں ابھی تک کورونا وائرس کا ایک بھی کنفرم کیس سامنے نہیں آیا۔ پنجاب میں صرف چھ مشتبہ مریضوں کو آئسولیشن میں رکھ کر ان کے ٹیسٹ کیے جا رہے ہیں۔
پنجاب کی حکومت نے کسی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے فوری طور پر وینٹیلیٹرز درآمد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وزیراعلی پنجاب کی سربراہی میں کورونا مانیٹیرنگ سیل بھی قائم کیا جا رہا ہے۔ طبی ماہرین مختلف ہسپتالوں کی عمارتوں کے درمیان میں آئسولیشن رومز بنانے پر اعتراض کر رہے ہیں، ابر آلود موسم کے پیش نظر جراثیمی تدارک کے لئے کیا جانے والا سپرے بھی عارضی طور پر روک دیا گیا ہے۔
کورونا وائرس کے حوالے سے ابھی تک نجی فلاحی تنظیموں کی طرف سے کوئی واضح پیش رفت سامنے نہیں آ سکی ہے۔ تجزیہ نگار ڈاکٹر عاصم اللہ بخش نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ کورونا وائرس کے مقابلے کے لیے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ ضروری ہے۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں عوام کو آگاہی فراہم کرنے کے لیے مساجد کے آئمہ اکرام، میڈیا کی شخصیات، اساتذہ اور والدین سمیت سب کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔