کروڑوں افراد ' قحط کی دہلیز پر' ، اقوام متحدہ
9 نومبر 2021اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام (ڈبلیو ایف پی) نے پیر کے روز بتایا کہ 43 ملکوں میں قحط کی دہلیز پر پہنچ چکے متاثرین کی تعداد بڑھ کر ساڑھے چار کروڑ ہوگئی ہے۔ ڈبلیو ایف پی کے ایگزیکیوٹیو ڈائرکٹر ڈیوڈ بیئسلی نے بتایا کہ صرف رواں برس ایسے افراد کی تعداد میں 30 لاکھ کا اضافہ ہوا ہے اور ”کروڑوں افراد گہری کھائی میں جھانکنے پر مجبور ہیں۔"
قحط سے متاثرین میں اضافے کا اسباب
ڈیوڈ بیئسلی نے ایک بیان میں کہا،” ہمارے سامنے جنگیں، ماحولیاتی تبدیلیاں اور کووڈ انیس جیسے بحران ہیں، جو بڑی تیزی سے بھوک کے شکار افراد کی تعداد میں اضافہ کررہے ہیں اور تازہ ترین اعدادشمار سے پتہ چلتا ہے کہ اب ساڑھے چار کروڑ سے زیادہ افراد قحط کی دہلیز تک پہنچ رہے ہیں۔"
اس برس کے اوائل میں انتہائی قحط کا سامنا کرنے والے افراد کی تعداد تقریباً چار کروڑ 20 لاکھ تھی جب کہ 2019 ء میں ایسے افراد کی تعداد دو کروڑ 70 لاکھ تھی۔ بالخصوص افغانستان میں خوراک کی عدم دستیابی کے بحران کا سامنا کرنے والوں کی تعداد اس اضافے کی ایک اہم وجہ ہے۔
بیئسلی کے بقول ” انسانوں کے پیدا کردہ تصادم عدم استحکام میں اضافے کاسبب بن رہے ہیں اور قحط کی ایک تباہ کن نئی لہر کو تقویت دے رہے ہیں جو پوری دنیا کو اپنی زد میں لینے کی طاقت رکھتی ہے۔‘‘
خوراک کی بڑھتی ہوئی قلت کے شکار ممالک کی فہرست میں اضافہ کرنے والے ملکوں میں افغانستان کے علاوہ ایتھوپیا، ہیٹ ی، صومالیہ، انگولا، کینیا اور برونڈی شامل ہیں۔
افغانستان سرفہرست کیوں بن گیا؟
بیئسلی نے افغانستان کی صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے حال ہی میں وہاں کا دورہ کیا تھا، جس کے بعد انہوں نے یہ بیان دیا ہے۔ ملک پر طالبان کے قبضے کے بعد اقو ام متحدہ کی فوڈ ایجنسی نے وہاں تقریباً دو کروڑ تیس لاکھ افراد کے لیے اپنی امدادی سرگرمیاں تیز کردی ہیں۔
بیئسلی کا کہنا تھا،” ایندھن مہنگا ہورہا ہے، کھانے پینے کی چیزیں مہنگی ہورہی ہیں۔ فرٹیلائزر زیادہ مہنگے ہوگئے ہیں اور یہ سب ایک نیا بحران پیدا کررہے ہیں۔ جیسا کہ اس وقت افغانستان میں اور ایک طویل عرصے سے جنگ کا سامنا کرنے والے شام اور یمن جیسے ملکوں میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔"
ڈبیلو ایف پی نے بتایا کہ افغانستان” دنیا کے سب سے بڑے انسانی بحران میں تبدیل ہوتا جارہا ہے۔اس ملک کی ضرورتیں دیگر بدترین متاثرہ ملکوں کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے شدت اختیار کرتی جارہی ہیں۔ متعدد خشک سالی کے سبب اقتصادی مندی پیدا ہوگئی ہے، لوگوں کی حالت ناگفتہ بہ ہے اور انہیں اپنے بچوں کی تعلیم ترک کرا دینے اور بچیوں کی جلد شادی کردینے جیسے ” ہلاکت خیز متبادل" اختیار کرنے کے لیے مجبور ہونا پڑ رہا ہے۔"
ڈبلیو ایف پی کا کہنا ہے کہ اس دوران افغانستان سے ایسے خبریں بھی موصول ہورہی ہیں کہ لوگ اپنے خاندان کی زندگیاں بچانے کے لیے اپنے بچوں کو فروخت کرنے پر مجبور ہورہے ہیں۔
افغانستان کے لیے امداد کی جلد بحالی کا کوئی امکان نہیں
اس دوران عالمی بینک نے کہا ہے کہ افغانستان میں موجودہ صورت حال میں امداد کا کوئی نظام نہیں اور اس کے جلد بحال ہونے کا امکان نہیں۔
عالمی بینک کے صدر ڈیوڈ ملپاس نے افغانستان کے لیے براہ راست امداد کی جلد بحالی کے امکان کو مسترد کرتے ہوئے کہا،''میں اپنے ادارے کو معیشت کی مکمل تباہی کے ماحول میں کام کرتا نہیں دیکھ رہا۔ درپیش مسائل میں سے ایک ادائیگی کا نظام ہے۔ موجودہ حکومت جو بھی کر رہی ہے، اس کو دیکھتے ہوئے رقم کی فراہمی حقیقت میں جاری رکھنے کی کوئی صلاحیت موجود نہیں۔"
عالمی بینک نے افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سلامتی اور خواتین کے حقوق کے حوالے سے خدشات کے پیش نظر افغانستان کی امداد روک دی تھی۔ بینک نے کہا تھا کہ وہ افغانستان کی صورت حال پر گہری نظر رکھتے ہوئے اس کا تجزیہ کر رہا ہے۔
حالات کیسے بہتر ہوسکتے ہیں؟
ڈبلیو ایف پی کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں قحط کو ٹالنے کے لیے فوری طورپر سات ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔ اس سال کے اوائل میں چھ ارب 60 کروڑ ڈالر کی امداد کا اندازہ لگایا گیا تھا۔
ڈبلیو ایف پی کے مطابق اتنی رقم سے اگلے برس تک ہر فرد کو روزانہ ایک وقت کا کھانا فراہم کیا جاسکتا ہے۔
ج ا/ ک م (اے ایف پی، یو این)