کروڑوں بھارتی بھوکے، لیکن سالانہ اربوں ڈالر کی خوراک ضائع
4 جنوری 2018بھارتی ریاست اترپردیش کے ایک چھوٹے سے گاوں کے آٹھ سالہ بھاشکر کمار کو اپنے اسکول کا ہوم ورک کرتے ہوئے کچھ پریشانی ہے۔ صرف تہواروں پر ہی چاول اور نمکین سبزیوں کی غذا پر گزارا کرنے والے اس بچے کو ہرے پتے والی سبزیوں کا نام سوچنے میں دقت کا سامنا ہے۔ لیکن شدید غربت کا شکار یہ بچہ اپنی ماں شکُنی بائی سے بھی مدد نہیں لینا چاہتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس کی ماں اس ہفتے میں صرف تین دن ہی دو وقت کے کھانے کا بندوبست کر سکی تھی۔
اقوام متحدہ کے مطابق شکُنی بائی ان 194 ملین افراد میں سے ایک ہے جو بھارت میں روزاانہ فاقہ کشی پر مجبور ہیں ۔ دوسری جانب حکومتی اعددوشمار کے مطابق اس ملک میں سالانہ 14 بلین ڈالر مالیت کی خوراک ضائع جاتی ہے۔
موسمياتی تبديليوں کے سبب بھوک ميں اضافے کا امکان، رپورٹ
آٹھ سو ملين سے زائد افراد خوراک کی کمی کے شکار
اس وقت بھارت دنیا میں سب سے زیادہ خوراک پیدا کرنے والا ملک ہے اور اس کوشش میں ہے کہ خوراک کی پیداوار، پروسیسینگ، فروخت اور کھپت کے کے دوران ہونے والے ضیاع کے عمل کو روکا جا سکے۔ اس کے لیے وہ نہ صرف اندرونی کوششوں کے لیے مالی معاونت دے رہا ہے بلکہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کے ساتھ مل کر ٹیکنالوجی اور دیگر رائج طریقوں میں بہتری لانے کی کوشش میں بھی ہے۔ تاہم فاقہ کشی کی شکار عوام کے مطابق بھارت کی یہ کوششیں بہت سُست ہیں۔
ضرورت سے زیادہ غذا کی پیداوار:
ورلڈ اکنامک فورم کے مطابق بھارت میں غذا کی پیداوار مسئلہ نہیں کیونکہ بھارت کو سالانہ 225-230 ملین ٹن غذا کی ضرورت ہے جبکہ پیداوار 270 ملین ٹن ہے۔ تاہم سابق بھارتی وزیر زراعت کے مطابق اس پیدا وار کا ایک بڑا حصہ یا تو دھوپ سے یا ترسیل کے دوران خراب ہو جاتا ہے یا پھر اسے چوہے اور دیگر کیڑے کھا لیتے ہیں۔
بچوں کی نشونما میں رکاوٹ:
بھارت میں غذا کے ضائع ہونے کے باعث لاکھوں افراد بھوک کا شکار ہیں۔ بھوک کے حوالے سے جاری کیے گئے عالمی انڈیکس کے مطابق ان میں 38.4 فیصد ایسے بچے ہیں جن کی عمر پانچ برس سے کم ہے۔ دیہی علاقوں میں ترقی کے حوالے سے کام کرنے والی ایک بھارتی این جی او کے مطابق بھارت میں پانچ برس سے کم عمر کے بچوں کی ہلاکت شرح 4.8 فیصد ہے جس کی جزوی طور پر وجہ مناسب غذا کی کمی اور غیر صحتمندانہ ماحول ہے۔
اشیا خوارک کی پیداوار اور ٹیکنالجی کا استعمال:
بھارتی حکومت کے مطابق خوراک کی تقسیم کے طریقہ کار اور ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے خوارک کے ضیاع کی روک تھام اور بھوک کے خاتمے کے لیے مختلف کوششیں کی جا رہی ہیں ۔ اس میں کسان سے ان کے اجناس مثلا چاول اور گندم خرید کر رعایتی قیمتوں میں صارفین کو فروخت کیا جاتا ہے۔ تاہم عوام کا کہنا ہے کہ یہ مناسب حل نہیں کیونکہ رعایت کی مد میں وہی اشیا فراہم کی جا رہی ہیں جو ناقابل استعمال ناور غیرمعیاری ہیں جبکہ معیاری اشیا کو تاجر یا دکاندار مہنگے داموں فروخت کر رہے ہیں۔