کرگل میں 145روز بعد انٹرنیٹ اور فون سروسز بحال
27 دسمبر 2019بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع لداخ کے خطہ کرگل میں ایک سو پینتالیس روز کے بعد انٹرنیٹ اور فون سروسز کو بحال کر دیا گیا ہے۔ تاہم وادی کمشیر میں اب بھی اس پر پابندیاں عائد ہیں۔ حکومت نے پانچ اگست کو جموں و کشمیر کو خصوصی حثیت دینے والی آئینی دفعہ 370 کو کلعدم کر دیا تھا اور ریاست کا درجہ ختم کرنے کے ساتھ ہی اسے مرکز کے زیر انتظام دو علاقوں میں تقسیم کر دیا تھا۔ اس کے تحت ایک لداخ کا علاقہ اور دوسرا جموں و کشمیر کا ہے۔
اس فیصلے کے بعد ہی امن و قانون کی بگڑتی صورت حال کا حوالہ دیتے ہوئے حکومت نے مختلف علاقوں میں بڑی تعداد میں فوج کے اضافی دستوں کو تعینات کیا اور جموں و کشمیر کے سبھی علاقوں میں فون اور انٹرنیٹ خدمات معطل کر دی تھیں۔ چند روز قبل ہی حکومت نے کشمیر سے سات ہزار نیم فوجی دستوں کو واپس بلایا تھا اور جمعے کو کرگل میں موبائل فونز اور انٹرنیٹ کو بحال کیا گيا۔
لیہ اور لداخ میں بدھ مذہب کے پیروکاروں اور مسلمانوں مخلوط آبادی ہے تاہم کرگل میں مسلمانوں کی اکثریت ہے اور لداخ میں بودھوں کی۔ کرگل کے ایک سیاسی رہنما سجاد کرگلی کہتے ہیں کہ حکومت نے فون اور انٹرنیٹ پر پابندی عائد کرکے کرگل کے باسیوں کے ساتھ ظلم کیا تھا۔
ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے سجاد کرگلی نے کہا : "حکومت نے ان پابندیوں سے ہمارے وجود پر ہی سوالیہ نشان لگا دیا، ہمیں دنیا سے الگ تھلگ کردیا تھا۔ اس سے تاجروں اور طلبہ کا بہت زیادہ نقصان ہوا ہے اوراس نقصان کا ازالہ نہیں ہوسکتا۔ حکومت نے ہمیں ہمارے بنیادی حقوق سے محروم کر کے رکھا ہوا تھا۔" کرگلی نے مزید کہا کہ یہ ایک طرح سے کرگل کے باسیوں پر حملہ تھا،" بھارت کی موجودہ حکومت فرقہ واریت کی راہ پر ملک کو تقسیم کرنے پر لگی ہے اور اب پورا ہندوستان ہی کشمیر بنتا جا رہا ہے۔"
کرگل میں اخبار 'گریٹیر لداخ' کے ایڈیٹر محمد علی وزیری کا کہنا ہے کہ جمعے کے روز انھیں پابندیوں کے خلاف طلبہ کا ایک بڑا مظاہرہ ہونے والا تھا اسی کے پیش نظر حکومت نے انٹرنیٹ اور فون سروسز کو بحال کیا ہے۔ ڈی ڈبلیو سے خاص بات چیت میں انھوں نے کہا کہ پورے خطے میں کرگل سب سے پرامن علاقہ مانا جاتا ہے تو یہ کرگل کے باشندوں کے ساتھ اجتماعی نا انصافی ہے۔
انھوں نے کہا: "صرف مسلمان ہونے کے ناطے ہم پر یہ ظلم ہوا ہے ورنہ کرگل میں ان پابندیوں کا کوئی جواز نہیں تھا۔ تاجر اور طلبہ کا خاص طور پر اس سے بہت نقصان پہنچا ہے۔ صحافی برادری تو پوری دنیا سے منقطع ہوگئی اور فون اور نیٹ کے بغیر وہ اپنا کام ہی نہیں کر پائے، بلکہ بے روزگار ہوکر رہ گئے۔ اس کے خلاف اتنی بے چینی بڑھ گئی تھی کہ آج ہی احتجاجی مظاہرہ ہونے والا تھا۔"