1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سفر و سیاحتایشیا

کریم آباد کا ایک ہوٹل، جو ہنزہ کو بچا سکتا ہے

15 اگست 2021

کریم آباد میں ایک ہوٹل بن رہا ہے، جس کا ابھی نام نہیں رکھا گیا لیکن یہ ہوٹل ہنزہ کے قدرتی اور طلسماتی حسن کو بچانے کے حوالے سے ایک قوی امید کے طور پر ابھر کر سامنے آرہا ہے۔

https://p.dw.com/p/3z0Xy
Waqar Ahmad
تصویر: privat

نظیم اللہ بیگ دور کسی کہکشاں میں بھٹکتے سیارے کا رہائشی ہے، جو زمین پر آ نکلا ہے۔ نظیم کے خیالات اس قدر تصوراتی ہیں کہ زمین کا شہری ہونے کی سند حاصل کرنے کے باوجود وہ یہاں کی مخلوق نہیں لگتا۔ میری نظیم اللہ بیگ سے ملاقات دس برس پہلے ہوٹل ہنزہ ایمبیسی میں ہوئی تھی۔ سب سے پہلے ذرا اس ملاقات کا دلچسپ احوال جانیے!

ہوٹل کی لابی میں میرے ساتھ ایک معروف اینکر اپنے ایک دوست  کے ساتھ بیٹھے تھے۔ ہمارے سامنے والے صوفے پر ایک گول مٹول سا لڑکا نما شخص بیٹھا تھا۔ ہم جس قد آدم شیشیے کے ساتھ بیٹھے تھے، اس شیشے کے پار دران کی چوٹی نظر آ رہی تھی۔ ہمارے سروں کے عین اوپر دیوار پر مارخور کا سر دیوار کے ساتھ بطور آرائش چپکا ہوا تھا۔ یہ کیسی عجیب بات ہے کہ ہم انسان کسی دوسری نوع کے سر کو بطور زیبائش ٹانگ دیتے ہیں۔

خیر ان اینکر صاحب کی نظر جب مار خور کے سر پر پڑی تو انہوں نے اپنے دوست کو پنجابی میں مخاطب کرتے ہوئے پوچھا کہ اس میں کتنا گوشت ہو گا؟ دوست  ابھی آنکھوں کو جھینپتے اور سر پر خواہ مخواہ کے بل ڈالے اندازہ لگانے ہی لگا تھا کہ اینکر صاحب نے فیصلہ کن لہجے میں کہا کہ مجھے یقین ہے کہ دو من گوشت تو ہو گا اس میں۔۔۔ یا شاید ڈیڑھ  من بھی ہو سکتا ہے۔ اب یہ مکالمہ میرے لیے ایسا کوئی حیران کن نہیں تھا لیکن ایک اور منظر نے میری توجہ کھینچ لی۔ سامنے بیٹھا گول مٹول لڑکا نما شخص، جو اپنے لیپ ٹاپ پر نظریں جھکائے مصروف تھا، اس مکالمے کے دوران وہ اچانک ٹھٹھک کر اوپر دیکھتا ہے اور مکالمہ بازوں کی جانب حیرت سے تکتا ہے۔ اس کے بعد اس کی نظریں مار خور پر جاتی ہیں اور پھر دوبارہ مکالمہ بازوں پر آ کر ٹھہر جاتی ہیں جو مارخور میں گوشت کے درست تخمینے لگانے میں مصروف ہیں۔ پھر سر کو دائیں بائیں یوں حرکت دیتا ہے، جیسے کہہ رہا ہو کہ ان کا کچھ نہیں ہو سکتا اور دوبارہ لیپ ٹاپ کی ڈیجیٹل دنیا میں واپس چلا جاتا ہے۔

مجھے گول مٹول اجنبی کے اس رد عمل سے اندازہ ہو گیا کہ اس کا تعلق ہنزہ سے ہے اور مزید قیاس یہی ہے کہ یہ کریم آباد کا ہی ہو گا۔ اب میں انتظار کرتا ہوں کہ کب یہ مکالمہ باز اٹھیں اور کب اس نوجوان سے بات چیت کروں۔ تھوڑی دیر بعد مکالمہ باز گوشت کے حساب کتاب کے ساتھ اپنے کمروں میں چلے جاتے ہیں۔ میں انتظار کرتا ہوں کہ کب ان کی سوچ سے آلودہ فضا کچھ صاف ہو کہ اس نوجوان سے بات کر سکوں۔

میں نے نام پوچھنے سے گفتگو کا آغاز کیا۔ فرمانے لگے، ''میں نظیم اللہ بیگ ہوں اور میرا تعلق کریم آباد سے ہے۔ امریکا سے حال ہی میں تعلیم حاصل کر کے لوٹا ہوں۔ یہ ہوٹل میرے خاندان کا ہی ہے۔‘‘ میں نے پوچھا کہ تھوڑی دیر پہلے کچھ مہمان بیٹھے تھے، جن کی گفتگو سن کر مار خور میں گوشت کے حوالے سے آپ نے کچھ حیرت کا سا اظہار کیا تھا۔ کہنے لگے، ''اصل میں ایک تو یہ کسی اصلی مارخور کا سر نہیں ہے، کسی آرٹسٹ کا کمال ہے لیکن اس نے اس کو ایسے تخلیق کیا ہے، جیسے بالکل اصلی ہو۔ میں یوں اس کا سر دیوار پر لٹکانے کے بے حد مخالف ہوں لیکن کچھ خاندان کے افراد اس کی وضاحت یوں کرتے ہیں کہ اس مجسمے کو بغرض تعلیم ہم نے لٹکا رکھا ہے کہ یہاں جو مہمان آتے ہیں ان کو معلوم ہو سکے کہ مارخور اور اس کی جسامت کیا ہوتی ہے۔‘‘ نظیم اللہ بیگ نے ایک نظر دران کی چوٹی پر کی، جس کو چاروں طرف سے بادل یوں ڈھانپ رہے تھے، جیسے دیکھنے والوں کو کہہ رہے ہوں کہ نمائش کا وقت ختم ہوا اوراب ہم اس کو سفید چادر میں لپیٹ رہے ہیں۔

نظیم اللہ بیگ نے گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا، ''یہاں بہت عرصے سے بیٹھتا رہا ہوں۔ اس لابی میں دنیا بھر سے سیاح آتے ہیں اور اس مارخور کے مجسمے کو دیکھتے ہیں۔ دیکھتے کیا ہیں، دیر تک اس کو گھورتے رہتے ہیں۔ کوئی اس کی آنکھوں کی تعریف کرتا ہے کوئی اس کی سینگوں کی بناوٹ پر عش عش کر اٹھتا ہے۔ بچے مار خور کے چہرے پر پائی جانے والی معصومیت سے لطف اٹھاتے ہیں لیکن خدا کی قسم میری زندگی میں یہ پہلے لوگ ہیں، جو اس میں پائے جانے والے گوشت کا حساب کتاب کر رہے تھے۔ ان کے چہروں پر مار خور کی خوبصورت تخلیق کے حوالے سے ہلکی سے ستائش کے سائے بھی نہیں تھے۔‘‘

تو یوں ہماری نظیم اللہ بیگ سے دوستی ہو گئی۔ نظیم اللہ بیگ ہنزہ کے ان لوگوں میں سے ایک ہیں، جو سیاحوں کی بڑھتی تعداد سے خوفزدہ ہیں۔ ہنزہ کی ثقافت رسوم و رواج اور لینڈ سکیپ کو بچانے کے لیے متحرک رہتے ہیں۔ حال ہی میں ہنزہ جانا ہوا تو نظیم سرینا ہوٹل کے نیچے کریم آباد کے خوبصورت اور قدرے عمودی جنگلات اور نیچے پائے جانے والے کھیتوں میں لے گیا۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں وہ ہوٹل بنا رہا ہے۔

نظیم اللہ بیگ اور ہوٹل ؟ یہ قدرے حیران کن بات ہے لیکن ذرا ہوٹل کی تفصیلات جانیے!

نظیم اللہ بیگ اپنی اور اپنے خاندان کے کچھ افراد کی زمین پر یہ ہوٹل بنا رہا ہے۔ نظیم کہتا ہے کہ ان کے پاس اب صرف دو ہی تو چیزیں رہ گئی ہیں ایک التر کی چوٹی اور دوسرا یہ پیالہ نما جنگل۔ چوٹی کا تو شاید وہ کچھ نہ بگاڑ سکیں لیکن یہ جنگل کمرشلزم کے ہتھے چڑھ سکتا ہے۔ ایسی صورت میں کریم آباد کے پاس کیا بچے گا؟

سب سے پہلے آغا خان کلچرل سپورٹ پروگرام کے ماہرین کو کہا گیا کہ یہاں پائے جانے والے پرندوں کے حوالے سے معلومات اکھٹی کریں۔ انہوں نے ایک نقشہ بنایا، جس میں پرندوں کی تعداد اور اقسام، ان کے بچوں کی تعداد، ان کے گھونسلوں کا حساب کتاب اور مزید اس بات پر تحقیق کی گئی کہ اگر مزید خود گھونسلے بنائیں جائیں تو باہر سے کون سے پرندے آ کر یہاں بسیرا کر سکتے ہیں؟ اس کے بعد تحقیق کا دائرہ بڑھاتے ہوئے لومڑیوں کی تعداد اور ان کے بلوں کا اندازہ لگایا گیا۔ ایک جگہ جھیل کے لیے مختص کی گئی۔ نیچے کسی گاڑی یا موٹر سائیکل کے لیے راستہ نہیں ہو گا بلکہ مہمان ایک الیکٹرک کار میں نیچے آئیں گے۔ کچھ کمرے اس طرح بنائے جا رہے ہیں کہ جسیے ہابٹ فلم میں ہابٹ ہاؤس ہوتے ہیں تاکہ لینڈ سکیپ بھی خراب نہ ہو اور لوگوں کو غار میں تمام سہولیات بھی حاصل ہوں۔ کچھ لکڑی کے سادہ کمرے بھی بنائے جائیں گے۔ ہر ہابٹ ہاؤس اور کمرے کے گرد سات سے آٹھ پھلدار درخت مزید لگائے جائیں گے۔ جہاں تعیمراتی کام کی وجہ سے لینڈ سکیپ متاثر ہو گی کام مکمل ہونے کے بعد اس لینڈ سکیپ کو پہلے کی طرح بحال کیا جائے گا کیونکہ یہ جنگل قدرے عمودی ہے تو ہر طرف سے قدرتی طور پر جو پانی نیچے گرتے ہیں بالکل ویسے ہی گرتے رہیں گے۔

میں نے نظیم سے پوچھا کہ جن لومڑیوں اور پرندوں کو بچانے کے لیے اور ان کو ایک محفوظ ماحول دینے کے لیے کوشش کر رہے ہو کیا ہوٹل میں آنے والے مہمان اس بات کا احساس کر سکیں گے؟ بہت سارے لوگ یہاں شور کریں گے، بار بی کیو پارٹیاں کریں گے، اونچی موسیقی بجائیں گے، ان تمام مسائل کا کیا حل ہو گا؟

  نظیم نے بتایا کہ وہ کلب کی طرز پر ممبر شپ کا سوچ رہے ہیں کیونکہ یہی واحد طریقہ ہے اس تمام ماحول کو بچانے کا۔

ایک سوال میرے ذہن میں کھٹک رہا تھا۔ میں نے نظیم نے پوچھا کہ اے کسی اور سیارے کے باسی اس سارے خیال کے پیچھے مقصد کیا ہے؟

 فرمانے لگے، صرف ایک، صرف ایک مقصد ہے کہ تاجروں کو بتایا جائے کہ کیسے اگر انسان کا مقصد پیسہ کمانا ہو تو وہ بغیر فطرت کو تباہ کیے فطرت کی بانہوں میں بانہیں ڈالے بھی پیسہ کما سکتا  ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ گلگت بلتستان میں ایک مثال قائم کروں اور پھر دیکھا دیکھی لوگ اسی طرز پر ہوٹل بنانا شروع کر دیں۔ سیاحوں کو اب روکا تو نہیں جا سکتا اور آبادی بڑھنے کے بعد ان کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ دوسری طرف مقامی آبادی بڑھ رہی ہے اور حکومت کی جانب دیکھنے کے بجائے خود قدم اٹھانا ہو گا۔

میں نے آخری سوال پوچھا، کیا ہم سب مل کر فطری ماحول کو بچا پائیں گے، ہمارے رویے تو بالکل متضاد ہیں؟

کسی اور اجنبی سیارے کے باسی نظیم نے پراسرار جنگل کے قدیم درختوں کی جانب نگاہ کرتے ہوئے کہا، بچا سکتے ہیں لیکن اس کے لیے ہمیں پرندوں اور جانوروں کے گوشت پر نظر رکھنے کے بجائے ان کی آنکھوں میں جھانکنے کی عادت اپنانا ہو گی۔