1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کریک ڈاون: پاکستانی خواتین کی سیاست میں عملی شرکت کو دھچکہ

27 مئی 2023

نو مئی تک بہت فعال رہنے والی شگفتہ حسین (نام بدل دیا گیا) پی ٹی آئی سے قطع تعلق کے باوجود انتہائی خوف زدہ ہیں۔ تحریک انصاف کی ٹائیگر فورس کی راولپنڈی میں اس سابقہ کارکن کو خطرہ ہے کہ انہیں اب بھی گرفتار کیا جا سکتا ہے۔

https://p.dw.com/p/4RtXv
Pakistan Lahore Punjab | PTI-Mitarbeiter vor Haus von Imran Khan
تصویر: Tanvir Shahzad/DW

شگفتہ حسین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میں نے پاکستان تحریک انصاف سے استعفیٰ دے دیا ہے اور میں تمام واٹس ایپ گروپوں سے بھی نکل گئی ہوں۔  لیکن اس کے باوجود مجھے خوف ہے کہ اب بھی شاید مجھے گرفتار کر لیا جائے اور کسی جھوٹے مقدمے میں پھنسا دیا جائے گا۔ ایسا لگتا ہے کہ صرف پی ٹی آئی کا کارکن ہونا بھی ایک جرم بن گیا ہے۔‘‘

ای سی ایل میں نام ڈالنے پر حکومت کا مشکور ہوں، عمران خان

شگفتہ حسین کے مطابق یہ صورت حال دیکھ کر خواتین کارکن بہت پریشان ہیں۔ ان کے مطابق، ''پاکستان کی سیاست میں پڑھی لکھی خواتین پہلے ہی بہت زیادہ تعداد میں نہیں تھیں۔ پی ٹی آئی کی وجہ سے پڑھی لکھی خواتین نے عملی سیاست میں قدم رکھا تھا لیکن اب اس کریک ڈوان کے بعد وہ بہت مایوس ہیں۔‘‘

خیال کیا جاتا ہے کہ پنجاب کے کئی علاقوں سے خواتین کارکنوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان تحریک انصاف کی پانچ سو سے زائد خواتین کارکنوں کی گرفتاری کی منظوری حکومت پنجاب نے کچھ دن پہلے ہی دے دی تھی۔

حملہ آوروں کا راولپنڈی اور گوجرانوالہ کے کور کمنڈرز کے گھروں پر بھی حملے کا منصوبہ تھا

ڈیرہ غازی خان سے تعلق رکھنے والی پی ٹی آئی کی ایک کارکن ثریا عدنان (نام بدل دیا گیا) کا کہنا ہے کہ نہ صرف خواتین کارکنان کو ڈرایا دھمکایا جا رہا ہے بلکہ مرد کارکنوں اور پارٹی رہنماؤں کی گرفتاریوں کے بعد جو وفاداریاں تبدیل کرائی جارہی ہیں، ان میں بھی خواتین کے ساتھ بدسلوکی کی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔

Pakistan Protest nach Misstrauensvotum gegen Imran Khan | Peshawar
پاکستان میں اب تک پی ٹی آئی کی بہت سی خواتین کارکنوں کو گرفتار کیا جا چکا ہےتصویر: Abdul Majeed/Getty Images/AFP

سابق وزیر مملکت زرتاج گل کے قریب سمجھی جانی والی ثریا عدنان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''نو مئی کے واقعات کو بہانہ بنا کر تحریک انصاف کو مکمل طور پر ختم کیا جا رہا ہے۔ نہ صرف خواتین کو گرفتار کیا جا رہا ہے بلکہ ان سے بدسلوکی بھی کی جا رہی ہے، جس سے کئی خواتین شدید خوف کا شکار ہیں۔‘‘

 ثریا عدنان کے مطابق اس کریک ڈاؤن کے پیش نظر اب یہ مشکل لگتا ہے کہ پڑھے لکھے گھرانوں کی خواتین بھی عملی سیاست میں قدم رکھیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’موجودہ حکومت پی ٹی آئی کے ساتھ دشمنی میں تمام حدیں پار کر گئی۔ وفاداریاں تبدیل کرانے کے لیے ہر طرح کے ہتھکنڈے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ شاید ہی پاکستان کی تاریخ میں اتنی بڑی تعداد میں کبھی خواتین کو گرفتار کیا گیا ہو۔‘‘

پاکستان میں سیاسی بے یقینی اور خوف کے ماحول میں عوام بے بس

کئی ناقدین کا دعویٰ ہے کہ پی ٹی آئی کوئی نظریاتی پارٹی نہیں اور اس میں شامل افراد کی بہت بڑی تعداد صرف عمران خان کی شخصیت کی وجہ سے ہی اس پارٹی میں ہے۔ تاہم کچھ مبصرین اس رائے سے بھرپور اختلاف بھی کرتے ہیں۔

تجزیہ نگار فریحہ ادریس کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ کریک ڈاؤن کے دوران ان پاکستان تحریک انصاف کے خلاف بے پناہ طاقت استعمال کی گئی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''نو مئی کے شرمناک واقعات کو بہانہ بنا کر خواتین کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ اس دوران تشویش ناک خبریں بھی سامنے آ رہی ہیں۔ مثال کے طور پر کچھ غیر ملکی ذرائع ابلاغ نے یہ بھی لکھا ہے کہ ان گرفتاریوں کے دوران خواتین کو ہراساں کرنے کے واقعات بھی پیش آئے۔‘‘

تحریک انصاف کی گرفتار خواتین کس حال میں ہیں؟

عمران خان پاکستان میں آخر اتنے مقبول کیوں ہیں؟

فریحہ ادریس اس تاثر کو غلط قرار دیتی ہیں کہ پی ٹی آئی میں صرف غیر نظریاتی لوگ تھے۔ ''ملائکہ بخاری نے بحیثیت رکن قومی اسمبلی زنا بالجبر کے خلاف قانون میں ترمیم میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ وہ نظریاتی طور پر بہت مضبوط تھیں اور نظریے کے لیے ہی انہوں نے اپنی برطانوی شہریت بھی چھوڑی تھی۔ ان کی طرح اور بھی بہت سی نظریاتی خواتین تھیں۔ لیکن اب ان جیسی خواتین کا سیاست میں آنا شاید ممکن نہ رہے۔‘‘

پاکستان میں سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے کی ریت

تحفظ حقوق نسواں کی کارکن فرزانہ باری کا کہنا ہے کہ موجودہ کریک ڈوان کے دوران انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں اور خواتین سیاسی کارکنوں سے انتہائی نامناسب سلو ک کیا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے خواتین کے لیے سیاست میں حصہ لینا آئندہ مشکل ہوجائے گا۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہمارا معاشرہ قدامت پسند ہے۔ اس پدر سری معاشرے میں پہلے ہی عورت کے لیے سیاست میں حصہ لینا بہت مشکل ہے۔ اب زیادہ قدامت پسند آبادی والے علاقوں میں جب عورتیں سیاست میں حصہ لینے کے لیے اپنے بڑوں سے اجازت مانگیں گی، تو انہیں ایسے ہی مناظر دکھائے جائیں گے، جن میں پولیس خواتین سیاسی کارکنوں کو گھیسٹ رہی ہو۔‘‘

کیا تحریک انصاف کو کالعدم کر دیا جائے گا؟

فرزانہ باری کے مطابق ان مناظر کا معاشرے پر گہرا اثر ہوگا، ''اب خواتین کے لیے عملی سیاست میں شرکت کے راستے اور بھی محدود ہو جائیں گے اور انہیں سیاست میں حصہ لینے کی اجازت مشکل سے ہی ملے گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی نمائندگی اور بھی کم ہو جایے گی۔‘‘

ریڈیو پشاور کی تباہی ذمہ دار کون؟