1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کزن میرج کا کیا کریں؟

28 نومبر 2023

پاکستان میں کزن میریجز کی تعداد ستر فیصد کے قریب ہے، جس کی وجہ سے جینیاتی بیماریوں کا گراف بڑھتا جا رہا ہے۔ ہمارے ہاں اگر کوئی اس موضوع پر آگاہی فراہم کرنا بھی چاہے تو اس پر لعنت و ملامت شروع کر دی جاتی ہے۔

https://p.dw.com/p/4ZXPG
DW Urdu Bloger Swera Khan
تصویر: Privat

چند روز قبل ایک دیرینہ سہیلی کی کال آئی، لہجہ ذرا معمول سے ہٹ کے بجھا بجھا سا تھا۔ حال احوال دریافت کرنے کے بعد کہنے لگیں کہ کل شام اس کی منگنی ہے اور میری شرکت لازمی ہے۔ ایسے یوں اچانک، اس کے منہ سے منگنی کا سن کے میرے کان کھڑے ہو گئے، کیوں کہ ابھی گزشتہ دنوں جب ہماری بات ہوئی تو ہم یہی دیسی رشتہ کلچر ڈسکس کر رہے تھے۔

میری یہ دوست، ایک زمین دار گھرانے سے تعلق رکھتی ہے اور اس کے ہاں، خاندان سے باہر شادی کرنا گویا گناہ کبیرہ سمجھا جاتا ہے۔ خواہ لڑکی، لڑکے کی عمر نکل جائے یا جوڑوں کی عمروں میں خاصا تضاد ہو۔

خاندان کے بڑوں کے درمیان رشتہ طے کرنے کے بعد لڑکی/ لڑکے کو اطلاع کے نام پر حکم نامہ سنایا جاتا ہے، جسے ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ اکثریت تو بغیر چوں چراں کیے مان بھی لیتی ہے، کیوں کہ انکار کی صورت میں کافی بھاری نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

میں نے دریافت کیا کہ یوں اچانک منگنی کیسے طے ہو گئی؟

اس نے ایک سرد آہ بھری، پھر مختصراً بتانے لگی کہ ان دونوں بہنوں کا رشتہ لینے کے لیے خاندان بھر میں کچھ عرصے سے ایک تناؤ کا ماحول تھا۔

'کل اچانک امی کی طبیعت بہت بگڑ گئی اور ساری رات ہمیں ہسپتال گزارنا پڑی، آج طبیعت کچھ بحال ہوئی تو ہم گھر آ گئے'۔ شام میں ماموں کی فیملی تیمار داری کرنے آئی، تو ان کے جانے کے بعد حکم سنا دیا گیا کہ کل تم دونوں بہنوں کی ماموں کے دونوں بیٹوں کے ساتھ منگنی ہے اور دو ماہ بعد شادی۔۔۔

یوں اب ان کی تیسری نسل، لگاتار فرسٹ کزن میرج کرنے جا رہی ہے۔ کزن میرج کے باعث ان کے خاندان میں پہلے ہی فشار خون، جوڑوں کے درد، ذیابیطس جیسی بیماریاں نسل در نسل منتقل ہو رہی ہیں۔

پاکستان میں کزن میریجز کی تعداد ستر فیصد کے قریب ہے، جس کی وجہ سے جینیاتی بیماریوں کا گراف وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ ہمارے ہاں اگر کوئی اس موضوع پر آگاہی فراہم کرنا بھی چاہے تو اس پر لعنت و ملامت شروع کر دی جاتی ہے۔ حوالے کے طور پہ کہا جاتا ہے کہ میری بھی تو اپنے عم زاد سے شادی ہوئی ہے اور ہمارے فلاں دوست، فلاں عزیز کی بھی کزن میرج ہے۔ انہیں تو کسی قسم کے کوئی مسائل درپیش نہیں ہوئے۔

انٹرنیشنل ذیا بیطس فاؤنڈیشن کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں شوگر کے مریضوں کی سب سے بڑی تعداد پاکستان میں پائی جاتی ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق، ہماری کل آبادی کا تیس فیصد اس وقت ذیابیطس کے مرض کا شکار ہے۔

حالیہ سروے میں یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ بچوں میں منتقل ہونے والی ستر فیصد بیماریاں موروثی ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ کے مطابق پاکستان میں اس وقت جینیاتی بیماری کے شکار مریضوں کی تعداد سولہ ملین ہے۔

برطانیہ کی کل آبادی کا پانچ فیصد مسلم آبادی پر مشتمل ہے اور وہاں بھی اکثریت میں کزن میرج کا رجحان ہے، جس کے باعث ان کے ہاں پائے جانے والے تیس فیصد جینیاتی کیسز کا تعلق مسلم آبادی سے ہے۔ یہ ڈیٹا جینیاتی بیماریوں کے سب سے بڑے آرکائیو omim پر دیکھا جا سکتا ہے۔ مغربی ممالک میں اول تو فرسٹ اور سیکنڈ کزن میریجز ہوتی ہی نہیں۔ دوسرا ان پر پابندی کے لیے بھی وقتاً فوقتاً آواز اٹھائی جاتی ہے۔

کزن میرج کے نتیجے میں بچے کی پیدائش کے بعد فوری اموات، بے اولادی، پری ٹرم ڈیلیوری، تھیلیسیمیا، مرگی، گونگا پن، بہرہ پن، بائی پولر ڈس آڈر سمیت کئی بیماریوں کے پھیلنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے مگر پاکستانی سماج کا المیہ ہے کہ یہاں اس سب کے باوجود کزن میریجز کو روکنا نا ممکن سا لگتا ہے۔

اس رویے پر بات کرنا، ان بیماریوں سے بچنے کے تمام ممکنہ حل ڈھونڈنا اب از حد ضروری ہو چکا ہے۔ یہ سلسلہ اب یوں تو رکنے والا نہیں، لہذا کزن میرج سے پہلے چند ٹیسٹوں کا کروانا لازم و ملزوم قرار دیا جانا چاہیے۔ جیسا کہ تھیلیسیمیا، بانجھ پن، ذیا بیطس اور چند بنیادی جینیاتی طور پر منتقل ہونے والی بیماریوں کی تشخیص، تا کہ بعد میں پیش آنے والے ناخوشگوار واقعات سے ممکنہ حد تک بچا جا سکے۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔