کسانوں کا احتجاج اور لال قلعے پر سکھوں کا پرچم
27 جنوری 2021دہلی کی پولیس نے بدھ 27 جنوری کو یوم جمہوریہ کی تقریب کے دن فسادات برپا کرنے، سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے اور پولیس پر حملہ کرنے جیسے الزامات کے تحت دو سو سے زیادہ افراد کو حراست میں لیا ہے۔ اس سلسلے میں اب تک تقریباً دو درجن مقدمات بھی درج کیے گئے ہیں جس میں تشدد کے لیے معروف کارکن اور سیاسی رہنما یوگیندر یادو سمیت متعدد کسان رہنماؤں پر الزام عائد کیا گیا ہے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ یوم جمہوریہ کے موقع پر کسانوں کی ٹریکٹر ریلی کے دوران حملوں میں اس کے تین سو سے زیادہ اہلکار زخمی ہوئے۔ پولیس کے مطابق سی سی ٹی وی کیمروں کے فوٹیج کی اسکیننگ کی جار ہی اور حملوں میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ پولیس کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں پوچھ گچھ کے لیے بہت سے کسان رہنماؤں کو جلد ہی طلب کیا جائے گا۔
کسان تحریک کو بدنام کرنے کی سازش
کسان رہنماؤں کا کہنا ہے کہ یوم جمہوریہ کے موقع پر ٹریکٹر ریلی کے دوران جو پرتشدد واقعات پیش آئے اس کے پیچھے ایک سازش تھی اور اس کے لیے انہوں نے اداکار دیپ سدھو کو مورد الزام ٹھہرایا ہے۔
دیپ سدھو حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی کے قریبی مانے جاتے ہیں اور اداکار سنی دیول کے قریبی ساتھیوں ميں سے ہیں جو پنجاب سے بی جے پی کے رکن پارلیمان ہیں۔ گزشتہ روز لال قلعے میں مظاہرے کے دوران دیپ سدھو پیش پیش تھے۔ انہوں نے بھی لال قلعے کی فصیل پر سکھ پرچم "نشان صاحب" لہرایا تھا۔
اس دوران فیس بک پر اپنی ایک پوسٹ میں دیپ سدھو نے نشان صاحب کے لہرانے کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ مظاہرین نے قومی پرچم ہٹایا نہیں بلکہ بطور احتجاج وہاں پر سکھ پرچم بھی نصب کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کا کوئی پہلے سے منصوبہ نہیں تھا بلکہ مظاہرین نے یہ غصے میں کیا۔’’ زرعی قوانین کے خلاف علامتی احتجاج درج کرنے کے مقصد سے ہم نے ’نشان صاحب‘ اور کسانوں کا پرچم ایک ساتھ لہرایا اور کسان و مزدور کے اتحاد کا نعرہ بھی لگایا۔‘‘
پر تشدد مظاہرہ
بھارت ہر برس 26 جنوری کو یوم جمہوریہ مناتا ہے جس میں ملک کی دفاعی قوت کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ اس دن ملک کی عظمت کے تذکرے ہوتے ہیں تاہم اس بار یوم جمہوریہ کے روز ہی کسانوں نے حکومت کے زرعی قوانین کے خلاف ٹریکٹر ریلی کی، جس کے دوران پولیس اور مظاہرہ کرنے والوں میں دن بھر جھڑپیں ہوتی رہیں۔
دہلی اور اس کے قرب و جوار میں ہونے والی ان جھڑپوں میں درجنوں کسان بھی زخمی ہوئے ہیں۔ تاہم پولیس کا کہنا ہے کہ کسان رہنماؤں نے جن خاص راستوں پر ٹریکٹر ریلی کو محدود کرنے پر اتفاق کیا تھا، اس کا پاس نہیں رکھا اور پولیس کی تمام رکاوٹوں کو توڑتے ہوئے ہزاروں مظاہرین ٹریکٹر کے ساتھ دہلی کے قلب میں داخل ہوگئے۔
لال قلعے پر سکھ پرچم
دہلی میں کسانوں کا داخلہ روکنے کے لیے پولیس نے جگہ جگہ رکاوٹیں کھڑی کی تھیں اور اطلاعات کے مطابق ایسے ہی ایک مقام پر پولیس نے کسانوں پر لاٹھی چارج کر دی جس کے سبب کسان برہم ہوگئے اور روکاٹیں توڑ توڑ کر آگے بڑھنے لگے۔ اس طرح مظاہرہ کرنے والے کسانوں کا ایک بڑا گروپ مرکزی دہلی کے قلب میں واقع آئی ٹی او چوک پر وہاں پہنچ گيا جہاں سے یوم جمہوریہ کی پریڈ محض دو کلو میٹر کے فاصلے پر تھی۔
اس ٹریکٹر ریلی میں شامل ایک دوسرا بڑا گروپ دہلی کے فصیل بند شہر کی طرف بڑھا اور پھر مغلیہ دور کی تاریخی لال قلعے میں داخل ہوگيا۔ اس گروپ میں بہت سے سکھ سردرا بھی شامل تھے جو گھوڑوں پر سوار تلواروں اور کرپان سے لیس تھے۔ ان افراد نے لال قلعے کی فصیل پر اسی مقام پر سکھ مذہب کا پرچم لہرایا دیا جہاں بھارتی وزیر اعظم ہر برس یوم آزادی کے موقع پر روایتا بھارتی پرچم لہرانے کے بعد قوم سے خطاب کرتا ہے۔
برہم کسان تقریبا تقریبا دو گھنٹے تک لال قلعے کے اندر نعرے بازی کرتے رہے۔ اس صورت حال پر بڑي مشکل سے اس وقت قابو پایا جا سکا جب اضافی فورسز موقع پر پہنچیں اور لاٹھی چارج کیا۔ بیشتر علاقوں میں افرا تفری کا ماحول رہا جس کی وجہ سے دہلی کے متعدد علاقوں میں جزوی طور پر انٹرنیٹ سروس کو بھی معطل کرنا پڑا۔
کسانوں کی اس ٹریکٹر پریڈ میں پنجاب، ہریانہ اور اتر پردیش کے کسانوں کی ایک بڑی تعداد شامل تھی جس میں نوجوانوں کی اکثریت تھی۔ جو کسان اس پریڈ میں شرکت کے لیے دہلی کی سرحدوں تک پہنچ نہیں سکے انہوں نے اپنے اپنے علاقوں میں ریلیاں نکالیں۔
عدالت کی نگرانی میں تفتیش کا مطالبہ
اس دوران بدھ کے روز ہی سپریم کورٹ میں ایک درخواست دی گئی ہے اور اس پورے معاملے کی تفتیش کے لیے سبکدوش جج کی نگرانی میں ایک کمیشن بنانے کی اپیل کی گئی ہے۔ عدالت سے یہ بھی استدعا کی گئی کہ وہ اس معاملے میں ان افراد کے خلاف مقدمات درج کرے جنہوں نے یوم جمہوریہ کے موقع پر قومی پرچم کی توہین کی۔
ان پر تشدد واقعات کی روشنی میں دہلی اور پنجاب میں ریڈ الرٹ جاری کرتے ہوئے سکیورٹی کو مزید سخت کر دیا گیا ہے۔ لال قلعہ اور کسانوں کے دھرنے کے مقام سمیت دہلی کے متعدد علاقوں میں سکیورٹی فورسز کے اضافی دستے تعینات کیے گئے ہیں۔
کسانوں کے مطالبات
مودی حکومت نے گزشتہ برس جن متنازعہ زرعی قوانین کو متعارف کیا تھا ان کے خلاف گزشتہ دو ماہ سے بھی زیادہ وقت سے احتجاجی مظاہرے ہورہے ہیں۔ اس تعطل کو دور کرنے کے لیے حکومت اور کسانوں کے درمیان اب تک بات چیت کے گیارہ ادوار ہو چکے ہیں لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا ہے۔
حکومت ان قوانین میں ترامیم کا وعدہ کر رہی ہے لیکن کسان تنظیمیں ان تینوں قوانین کو واپس لینے کا مطالبہ کر رہی ہے۔ کسانوں کو خدشہ ہے کہ ان قوانین کی وجہ سے انہیں ان کے اناج کی فروخت کے عوض مناسب دام نہیں ملیں گے اور مقامی منڈیوں پر نجی تاجروں اور بڑے کارپوریٹ اداروں کا قبضہ ہو جائے گا۔