کشش ثقل کی لہریں، کائنات کے رازوں کی جانب نئی کھڑکی
12 فروری 2016یہ پہلا موقع ہے کہ سائنسدانوں نے کشش ثقل کی ان لہروں کا کھوج لگایا ہے۔ جرمن نژاد سائنسدان البرٹ آئن اسٹائن نے ان لہروں کی موجودگی کا نظریہ قریب ایک صدی قبل پیش کیا تھا تاہم ان کی پیمائش میں یہ اولین کامیابی حاصل ہوئی ہے۔
محققین کے مطابق انہوں نے جن کشش ثقل کی لہروں کو شناخت کیا ہے وہ بہت زیادہ دوری پر موجود دو ایسے بڑے بلیک ہولز سے پیدا ہوئیں جو ایک دوسرے کے گرد مدار میں حرکت کر رہے تھے اور گھومتے ہوئے بتدریج ایک دوسرے سے ٹکرا کر ایک زیادہ بڑے بلیک ہول کی شکل اختیار کر گئے۔
خیال رہے کہ بلیک ہول ایک ایسا فلکی جسم ہے جو نہ بہت زیادہ بڑا ہوتا ہے بلکہ اس حد تک زیادہ کثیف بھی ہوتا ہے کہ اس میں داخل ہونے والی روشنی بھی باہر نہیں نکل سکتی۔ بلیک ہولز کی موجودگی کا نظریہ بھی آئن اسٹائن ہی کی طرف سے پیش کیا گیا تھا۔
ماہرین کے مطابق اس کامیابی کے بعد کائنات کی ابتدائی شکل کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے نئے امکانات کا دورازہ کھُل گیا ہے۔
ریسرچرز کے مطابق یہ لہریں جن دو بلیک ہولز کے ٹکرانے سے پیدا ہوئیں ان میں سے ایک ہمارے نظام شمسی کے سورج سے 29 گنا بڑا تھا جبکہ دوسرا 36 گنا زیادہ۔ جبکہ یہ دونوں زمین سے 1.3 بلین نوری سال کے فاصلے پر موجود تھے۔
امریکا میں قائم گریویٹیشنل ویوو آبزرویٹری یا (LIGO) نے گزشتہ برس 14 ستمبر کو ایسی لہروں کی پہلی مرتبہ پیمائش کی۔ سائنسدانوں کے مطابق یہ سنگ میل ریاست لوئیزیانا اور واشنگٹن میں موجود لیزر ڈیٹیکٹرز کی مدد سے عبور کیا گیا۔ اس مقصد کے لیے گزشتہ ایک دہائی سے کوششیں چل رہی تھیں۔
کیلیفورنیا انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی سے تعلق رکھنے والے ماہر طبیعات کِپ تھورنے Kip Thorne کے مطابق، ’’بلیک ہولز کے ٹکرانے کے سبب خلا اور وقت کی ساخت میں ایک ایسا شدید طوفان پیدا ہوا جس نے وقت کی رفتار بڑھائی اور کم کر دی اور ایک بار پھر بڑھا دی۔ ایک ایسا طوفان جس سے خلا کی ساخت میں لہروں کے گزرنے کی طرح کا تغیر پیدا ہوا۔‘‘
آئن اسٹائن نے 1916ء میں اپنی تھیوری آف ریلیٹیویٹی یا نظریہ اضافت پیش کرتے ہوئے کشش ثقل کی لہروں کی موجودگی کا نظریہ بھی پیش کیا تھا جس کے مطابق کشش ثقل دراصل کسی مادے کی موجودگی میں اسپیس اور ٹائم میں تبدیلی کا عمل ہے۔ سائنسدانوں کو اب تک ایسی لہروں کی موجودگی کا براہ راست ثبوت نہیں ملا تھا۔