کشمیر: بھارت کا مقابلہ اب پاکستان کے بجائے چین سے
12 اگست 2022کشمیر کے لداخ علاقے میں بھارت اور چین کے درمیان فوجی جھڑپ نے نئی دہلی کا رخ بدل دیا ہے۔ آزادی کی 75ویں سالگرہ منانے والے بھارت کی خارجہ اور سکیورٹی پالیسی میں اب چین سر فہرست ہے۔
کشمیر پر نگاہ رکھنے والی بھارتی فوج کے شمالی کمان کے سابق سربراہ لفٹننٹ جنرل ڈی ایس ہوڈا کا کہنا ہے کہ بھارت کی معیشت بہت آگے ہے اور چین کی جانب سے زبردست مدد کے باوجود پاکستان کی معیشت بھارت کی مضبوط معیشت سے بہت پیچھے ہے۔ ایسے میں بھارت بہت تیزی سے اپنی توجہ چین پر مرکوز کر رہا ہے۔"
بھارت اور پاکستان کے سن 1947 میں برطانوی نوآبادیاتی حکومت سے آزادی حاصل کرنے کے بعد سے ہی کشمیر بغاوت، لاک ڈاون اور سیاسی ہنگامہ آرائی سے دوچار رہا ہے۔ حتی کہ پاکستان اور چین کے ساتھ بھارت کی چار جنگوں میں سے دو کا سبب بھی کشمیر ہی تھا۔ کشمیر دنیا کی واحد ایسی جگہ ہے جس کے سلسلے میں دنیا کی تین جوہری طاقت رکھنے والے ملکوں کے درمیان کشیدگی ہے۔
ناوابستہ تحریک اور بھارت
سن 1960 کی دہائی میں بھارت ناوابستہ تحریک کا ایک سرگرم رکن تھا۔ گروپ میں شامل 100 سے زائد ملکوں میں سے بیشتر نے سرد جنگ کے دور میں کسی ایک بڑی طاقت کا حلیف بننے کے بجائے ناوابستہ رہنے کا فیصلہ کیا۔ پاکستان اور چین جیسے پڑوسیوں کے ساتھ تنازعات کے باوجود بھارت کا ناوابستہ رویہ اس کی خارجہ پالیسی کی بنیاد رہا ہے۔ اس کے علاوہ بھارتی سفارت کار کشمیر کے حوالے سے پاکستان کے دعووں کا جواب دینے پر خصوصی توجہ دیتے رہے ہیں۔
سابق بھارتی خارجہ سکریٹری کنول سبل کہتے ہیں، "کشمیر ایک طرح سے ہماری خارجہ پالیسیوں کی فکرمندیوں کے مرکز میں رہا ہے۔"
پاکستان کی جگہ چین
تاہم بھارت اور چین کے درمیان لداخ سرحدی تنازعے نے دونوں ایشیائی ملکوں کے درمیان کشیدگی میں کافی اضافہ کردیا ہے۔ سفارت کاروں اور اعلیٰ فوجی حکام کے درمیان 17 دور کی بات چیت کے باوجود یہ کشیدگی اور تعطل برقرار ہے۔
ڈی ایس ہوڈا کا کہنا ہے کہ کئی دہائیوں تک بھارت یہی سمجھتا رہا کہ چین اس کے لیے کوئی فوجی خطرہ نہیں بنے گا۔ حالانکہ سن 2020 کے وسط میں قراقرم کے پہاڑوں میں لداخ کی گلوان وادی میں ہونے والی جھڑپ نے اس خیال کو یکسر بدل دیا۔
نئی دہلی کے سینٹر فار سوشل اینڈ اکنامک پروگریس میں ریسرچ فیلو کانسٹینٹیو زیویئر کہتے ہیں، "گلوان اسٹریٹیجک لحاظ سے ایک اہم نقطہ ثابت ہوا۔ اس نے بھارت میں ایک نیا اتفاق رائے پیدا کیا کہ اسے چین کے ساتھ صرف سرحدی تنازعات کو حل کرنے کے بجائے پورے رشتے کو ازسرنو طے کرنا چاہیے۔"
خیال رہے کہ گلوان میں عہد وسطیٰ کے اسٹائل میں ہونے والی لڑائیوں کی طرح بھارتی اور چینی فوجیوں نے پتھروں اور لاٹھیوں کا استعمال کیا جس میں بھارت کے 20 اور چین کے چارفوجی مارے گئے۔
یہ لڑائی وزیر اعظم نریندرمودی کی قیادت والی بھارت کی ہندو قوم پرست حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی جانب سے کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والی دفعہ 370 کو ختم کرنے اور ریاست کو مرکز کے زیر انتظام دو علاقوں، لداخ اور جموں و کشمیر میں تقسیم کر دینے کے ایک برس بعد ہوئی تھی۔
مودی حکومت نے اس کے ساتھ ہی زمین کے مالکانہ حقوق اور ملازمتوں کے سلسلے میں ریاست کا خصوصی اختیار کو بھی ختم کر دیا جب کہ مقامی سیاست دانوں، صحافیوں اور میڈیا پر سخت پابندیاں عائد کردیں۔
مودی حکومت کا دعویٰ تھا کہ اس اقدام کے ذریعہ صرف انتظامی تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ حالانکہ ہندو قوم پرستوں کا ایک عرصے سے مطالبہ رہا ہے کہ مسلم اکثریتی کشمیر کو بھارت میں پوری طرح سے شامل کیا جائے۔
پاکستان نے بھارت کے اس قدم کی سخت نکتہ چینی کی تھی اور کہا کہ کشمیر ایک بین الاقوامی تنازع ہے اور اس کی پوزیشن میں کوئی بھی یک طرفہ تبدیلی بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کے قراردادوں کے خلاف ہے۔
چین کا چیلنج
تاہم بھارت کے اس اقدام پر سب سے بڑا سفارتی چیلنج چین کی طرف سے آیا جس کی بھارت کو قطعی توقع نہیں تھی۔
چین نے بھارت کے اس فیصلے کی نکتہ چینی کی اور اس معاملے کو اقوام متحدہ سلامتی کونسل میں اٹھایا۔ گوکہ سلامتی کونسل میں کشمیر کے تنازعے پر گزشتہ پانچ دہائیوں کے دوران متعدد میٹنگیں ہوچکی ہیں تاہم آج تک کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا ہے۔
کشمیر کے حوالے سے بھارت اپنی دیرینہ پالیسی پر قائم ہے۔ وہ بین الاقوامی برادری کے سامنے اس بات پر زور دیتا رہا ہے کہ کشمیر پاکستان کے ساتھ اس کا دوطرفہ معاملہ ہے جبکہ پاکستان کو یہ اپنا داخلی معاملہ بتاتا ہے۔ اور ناقدین کے سامنے اس بات پر زور دیتا ہے کہ کشمیردراصل دہشت گردی اور قانون و انتظام کا مسئلہ ہے۔
کشمیر میں تشدد اور جوہری ہتھیار
ابتدا میں کشمیر کے کچھ حصوں میں میں بھارت کے خلاف پرامن مظاہرے ہوئے لیکن جب مظاہرین کے خلاف پولیس کارروائیاں شروع ہوئیں تو سن 1989 میں مسلح بغاوت نے زور پکڑ لیا اور کشمیر میں دہشت گردی ایک بڑا مسئلہ بن گیا۔ اور اس میں اب تک ہزاروں افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
جب بھارت اور پاکستان نے سن 1989 میں اپنے اپنے جوہری تجربات کیے تو کشمیر جوہری طاقت کا ایک فلیش پوائنٹ بن گیا۔ اس صورت حال کی وجہ سے عالمی برادری کی توجہ اس جانب مبذول ہوئی اور اس وقت کے امریکی صدر بل کلنٹن نے کشمیر کو "دنیا کی سب سے خطرناک جگہ" کہا تھا۔
بھارتی خارجہ پالیسی کے متعدد ماہرین کا خیال ہے کہ باوجودیکہ کشمیرمیں عوام کے جذبات بھارتی حکومت کے خلاف ابھرتے رہے تھے اس کے باوجود بھارت کئی دہائیوں تک کشمیر میں تبدیلی کے لیے غیر ملکی دباو کو روکنے میں کامیاب رہا تھا۔
بھارت کے پالیسی سازوں کے سامنے اب چین ایک بڑا چیلنج ہے۔ چین ایشیا میں اپنی قوت بڑھانے کے ساتھ ہی کشمیر کے مسئلے پر پاکستان کی مسلسل حمایت کر رہا ہے۔
شکاگو یونیورسٹی میں سیاسیات کے استاذ پروفیسر پال اسٹانی لینڈ کا کہنا ہے کہ پاکستاب اب چینی طاقت کے معاون کے طور پر زیادہ پیچیدہ کردار ادا کر رہا ہے۔ اس سے اسے مزید قوت اور اثر انداز ہونے کا موقع ملا ہے۔ "
جیوپالیٹیکل ٹکراو میں اضافہ کے ساتھ ہی کشمیری عوام بڑی حد تک خاموش نظر آتے ہیں۔ ان کی شہری آزادیوں پر پابندیاں ہیں کیونکہ بھارت نے کسی بھی طرح کی مخالفت کے حوالے سے'زیرو ٹالیرینس' کی پالیسی اپنا رکھی ہے۔
عالمی منظر نامے پر چین کی قوت میں اضافہ ہونے کی وجہ سے بھارت امریکہ اور نئے اسٹریٹیجک اتحاد کواڈ سے زیادہ قریب ہوگیا ہے، جس میں بھارت اور امریکہ کے علاوہ آسٹریلیا اور جاپان بھی شامل ہیں۔ یہ ممالک چین پر خطے میں اقتصادی اجارہ داری قائم کرنے اور فوجی سرگرمیوں کے ذریعہ صورت حال کو تبدیل کرنے کے الزامات عائد کرتے ہیں۔
سابق سفارت کار کنول سبل کہتے ہیں، "ہمیں پتہ چل گیا ہے کہ چین کے عزائم کو روکنے کے لیے ایک حصار بنانے کی ضرورت ہے اور اس کے لیے چین کی کسی بھی جارحیت کے خلا ف سکیورٹی کی ایک نئی دیوار بنائی جارہی ہے۔ کواڈ کے مرکز میں بھی یہی بات ہے۔"
بھارت کے اسٹریٹیجک امور کے ماہرین اب کواڈ پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی بھارت نے چین سے ملحق اپنی سرحدوں پر بنیادی ڈھانچے کی ترقی تیز کردی ہے۔ دوسری طرف چین کواڈ کو اپنی اقتصادی ترقی اور اثر و رسوخ کو روکنے کی کوشش کے طور پر دیکھتا ہے۔
بھارتی سفارت کار کنول سبل کہتے ہیں، "ہم نے چین کو اشارہ دے دیا ہے کہ ہم تمہیں روکنے کے لیے دوسروں کے ساتھ ہاتھ ملانے کے لیے تیا رہیں۔"
ج ا / ص ز (ایسوسی ایٹیڈ پریس)