کشمیر: عسکریت پسندوں کے ساتھ تصادم، چار ہلاک
19 فروری 2021بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں پولیس حکام نے جمعہ 19 فروری کو بتایا کہ عسکریت پسندوں اور سکیورٹی فورسز کے درمیان تصادم کے دو مختلف واقعات میں تین عسکریت پسند اور ایک پولیس اہلکار ہلاک ہوا جبکہ ایک دیگر پولیس اہل کار شدید زخمی ہوا ہے۔
پولیس کے مطابق پہلا انکاؤنٹر جنوبی ضلع شوپیاں کے باڈیگام میں ہوا جس میں تین شدت پسند مارے گئے جبکہ سکیورٹی فورسز کا کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ پولیس کے ایک ترجمان کے مطابق شوپیاں میں آپریشن سے قبل پورے ضلعے میں انٹرنیٹ کو مکمل طور پر بند کر دیا گيا تھا۔ بیان کے مطابق "تین نا معلوم شدت پسند ہلاک ہوئے اور علاقے میں مزید تلاشی جاری ہے۔"
دوسرا انکاؤنٹر سری نگر سے 20 کلو میٹر کے فاصلے پر ضلع بڈگام میں ہوا جس میں ایک پولیس اہلکار ہلاک اور ایک زخمی ہوا۔ مقامی پولیس کی جانب سے ایک ٹویٹر پیغام میں کہا گیا ہے، ’’ہم نے ایک اسپیشل پولیس آفیسر (ایس پی او) کو کھو دیا جبکہ ایک اور زخمی ہو گیا۔ اطلاعات ہیں کہ یہاں لشکر طیبہ کا جو کمانڈر چھپا تھا وہ فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا ہے۔ لیکن ان کی تلاش کے لیے آپریشن اب بھی جاری ہے۔‘‘
سفارت کاروں کے دورہ کشمیر پر تنازعہ
کشمیر میں یہ تازہ تشدد غیرملکی سفارت کاروں کے ایک وفد کے کشمیر دورے کے دوسرے روز ہوا ہے۔ یورپی یونین کے سفیر اُوگو آسٹُوٹو کی قیادت میں چوبیس ملکوں کے سفارت کار بدھ کے روز دو روزہ دورے پر کشمیر گئے تھے اور گزشتہ روز شام کو جموں سے واپس آئے ہیں۔ تجزیہ کاروں نے اس دورے کو "حکومتی اسپانسرڈ وِزِٹ" قراردیا ہے۔
ریاست کے کئی سیاسی رہنماؤں نے بھی اس دورے پر کھل کر تنقید کی ہے۔ سابق وزیر اعلی عمر عبداللہ نے بیرونی سفارت کاروں کے اس دورے پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس سے کوئی فائدہ نہیں ہے کیونکہ سفارت کاروں کو صرف انہیں افراد سے ملنے کی اجازت ہوگی جنہیں دہلی نے پہلے سے منتخب کر رکھا ہے۔ انہوں نے اپنی ایک ٹویٹ میں طنزیہ انداز میں لکھا، ’’کشمیر کا دورہ کرنے کا آپ کا شکریہ۔ اب برائے کرم اپنے ممالک سے کچھ حقیقی سیاح بھی کشمیر بھیج دیں۔‘‘
مودی حکومت کی طرف سے اگست سن 2019 میں جموں و کشمیر کو حاصل خصوصی آئینی حیثیت ختم کر دینے اور ریاست کو مرکز کے زیر انتظام دو علاقوں میں تقسیم کرنے کے بعد غیر ملکی سفارت کاروں کا یہ تیسرا دورہ ہے۔
کشمیر کے حوالے سے اقوام متحدہ پر بھارت کی تنقید
بھارتی حکومت اس سے عالمی برادری کو شاید یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہی ہے کہ کشمیر میں سب کچھ درست ہے۔ تاہم حیرت کی بات یہ ہے کہ انہیں کوششوں کے دوران بھارت نے کشمیر سے متعلق اقوام متحدہ کے بعض مبصرین کے بیانات پر سخت نکتہ چینی کی ہے۔
مذہبی آزادی اور اقلیتی حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کے مندوبین نے جمعرات کے روز ہی کشمیر سے متعلق بھارتی حکومت کی جانب سے آئینی ترامیم کے اقدامات پر یہ کہہ کر نکتہ چینی کی تھی کہ اس سے سیاست میں مسلمانوں کی شرکت متاثر ہوگی۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارتی اقدامات سے کشمیر میں زمین کی ملکیت اور روز گار کے حصول میں اقلیتی طبقے اور خاص طور پر مسلمانوں کو نقصان پہنچے گا۔
تاہم بھارت نے حسب معمول یہ کہہ کر ان اعتراضات کو مسترد کر دیا کہ جموں و کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے اور یہ قانون پارلیمان نے منظور کیے ہیں۔ وزارت خارجہ کے ترجمان انوراگ سری واستو کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کے ماہرین نے ایک ایسے وقت یہ بیان جاری کیا جب بھارتی حکومت بیرونی سفارت کاروں کی کشمیر میں ميزبانی کر رہی ہے۔
کشمیر کے مقامی بھارت نواز رہنما بھی یہی کہتے رہے ہیں کہ بیرونی ممالک کے سفارت کاروں کو کشمیر لانے کا کیا فائدہ جب مقامی سیاسی رہنما جیلوں میں ہیں۔
گزشتہ ہفتے ہی بھارت میں انسانی حقوق کی ایک تنظیم نے کشمیر سے متعلق اپنی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ دفعہ 370 کے خاتمے کے بعد سےکشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں مسلسل جاری ہیں اور سینکڑوں کی تعداد لوگ بغیر کسی مقدمے کے جیلوں میں قید ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق حراست میں لیے گئے افراد میں سے ایک بڑی تعداد نا بالغ بچوں کی بھی ہے۔