کشمیر: ’فرضی‘ جھڑپوں کے باعث بھارتی فوج پر دباوٴ
9 جون 2010کشمیر میں مبینہ فرضی جھڑپوں اور جعلی مقابلوں کی تحقیقات کے حوالے سے بھارت کی وفاقی حکومت پر دباوٴ بڑھتا دکھائی دے رہا ہے۔
بھارت کے زیر انتظام ریاست جمّوں و کشمیر کے مژھل علاقے میں بھارتی فوج نے تیس اپریل کو مبینہ طور پر تین عام شہریوں کو ایک فرضی جھڑپ میں ہلاک کر کے عسکریت پسند قرار دے دیا تھا۔ بھارتی فوج کا دعویٰ تھا کہ ان تینوں افراد کو ُاس وقت مارا گیا، جب وہ لائن آف کنٹرول عبور کر کے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔ لیکن مارے جانے والے افراد کے اہل خانہ کا الزام ہے کہ ان تینوں شہریوں کو فوج نے تیس اپریل کے ’فرضی تصادم‘ سے تین روز قبل ان کے گھروں سے اغوا کیا تھا۔
اس واقعے پر عوامی احتجاج کے بعد شورش زدہ ریاست کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے تحقیقات کا حکم دے دیا۔ وزیر اعلیٰ عبداللہ نے مژھل انکاوٴنٹر کا سخت نوٹس لیتے ہوئے کہا تھا: ’’شفافیت کی بہت ضرورت ہے۔ یہاں کشمیر میں آرمی ہی جج، جیوری اور ہینگ مین ہے۔‘‘ بعد ازاں بھارتی فوج نے اس مبینہ جعلی انکاوٴنٹر کی انکوائری مکمل ہونے تک فی الحال اپنے ایک میجر کو معطل کر دیا جبکہ ایک کرنل کو کمانڈ سے ہٹا دیا۔
نیو یارک میں قائم حقوق انسانی کی بین الاقوامی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے کہا ہے کہ اگر بھارتی فوج فرضی جھڑپوں میں ملوث اپنے افسران اور فوجیوں کو سزا دینے سے متعلق واقعی سنجیدہ ہے تو اسے حالیہ ’جعلی تصادم‘ میں مشتبہ فوجیوں کو پولیس کے حوالے کر دینا چاہیے۔ ہیومن رائٹس واچ کے ساتھ منسلک سینیئر ریسرچر میناکشی گنگولی نے اس حوالے سے کہا: ’’اگر فوج سنجیدہ ہے تو اسے حالیہ واقعے کے ذمہ دار فوجیوں کو پولیس کے حوالے کردینا چاہیے تاکہ مشتبہ فوجیوں کے خلاف شہری عدالت میں مقدمہ چلایا جا سکے۔‘‘مس میناکشی نے یہ بھی کہا کہ فوج کے ’غیر متاثر کن‘ ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے ایسے معاملات میں فوجی عدالتوں سے انصاف کی امید کرنا صحیح نہیں ہوگا۔
ہیومن رائٹس واچ کی کارکن نے مزید کہا کہ ’فیک انکاوٴنٹرز‘ کے واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ اور بھی ضروری ہو گیا ہے کہ ریاست جمّوں و کشمیر میں ’آرمڈ فورسز سپیشل پاورز ایکٹ‘ختم کر کے فوج اور پولیس کو حاصل وسیع اختیارات واپس لے لئے جائیں۔ اس سپیشل ایکٹ کے تحت کشمیر میں فوجیوں کو یہ اختیارات حاصل ہیں کہ وہ محض شبہ کی بنیاد پربھی گولی چلا سکتے ہیں اور مشتبہ افراد کو حراست میں لے سکتے ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ کے مطابق کشمیر میں سن 2000ء اور 2007ء کی ’فرضی جھڑپوں‘میں ملوث فوجیوں کو آج تک پولیس کے حوالے نہیں کیا گیا اور نہ ہی ان کے خلاف شہری عدالتوں میں کوئی مقدمات چلائے گئے ہیں۔
نئی دہلی کے زیر انتظام بحران زدہ کشمیر میں گزشتہ اکیس برسوں کے پرآشوب دور میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سینتالیس ہزار سے زائد افراد مارے گئے ہیں جبکہ حقوق انسانی کی مختلف تنظیموں اور علٰیحدگی پسندوں کا کہنا ہے کہ یہ تعداد تقریباً ایک لاکھ ہے۔
کشمیر میں گزشتہ اکیس برسوں کے دوران فرضی جھڑپوں اور تصادم کے متعدد واقعات پیش آئے ہیں۔ بیس مارچ سن 2000ء کی شب جنوبی کشمیر کے گاوٴں چھٹی سنگھ پورہ میں سکھ اقلیت کے تیس سے زائد افراد کی ہلاکت کے افسوس ناک واقعے کے محض پانچ روز بعد ہی بھارتی فوج نے اس کے لئے ’’ذمہ دار پانچ غیر ملکی عسکریت پسندوں‘‘ کو پتھری بل پنچہالٹن میں ایک ’جھڑپ‘ کے دوران ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ لیکن بعد میں بھارت کی مرکزی تفتیشی ایجنسی ’سی بی آئی‘ کی تحقیقات سے پتہ چلا تھا کہ جنگجو قرار دئے گئے پانچوں افراد در اصل عام کشمیری تھے۔ مارے جانے والے یہ شہری ظہور دلال، بشیر احمد بھٹ، محمد ملک، جمعہ خان اور جمعہ خان تھے۔
ریاستی حکومت نے پتھربل کے ’جعلی انکاوٴنٹر‘ کی سی بی آئی سے تحقیقات کرانے کا حکم دیا تھا، جس کے مکمل ہونے میں چار سال کا عرصہ لگا۔ اسی طرح کشمیر کے ایک اور علاقے گاندربل میں بھی ایک فرضی جھڑپ میں معصوم شہریوں کو ہلاک کر کے عسکریت پسند قرار دے دیا گیا تھا۔
کشمیری عوام میں عام تاثر یہی ہے کہ ’فرضی جھڑپوں‘ کے واقعات میں مبینہ طور پر ملوث بھارتی فوج کے اعلیٰ افسران کے خلاف سخت کارروائی نہیں کی جاتی۔
رپورٹ: گوہر نذیر گیلانی
ادارت: مقبول ملک