’کشمیر میں بھارتی ترجیح انصاف نہیں بلکہ کنٹرول ہے‘
9 جولائی 2020بدھ کے روز بھارتیہ جنتا پارٹی کے نوجوان رہنما شیخ وسیم باری، ان کے والد اور ایک بھائی کو فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا گیا ہے۔ پولیس حکام کا دعوی ہے کہ شدت پسندوں کی جانب سے انہیں نو بجے رات کو ان کی دوکان پر نشانہ بنایا گیا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کی دوکان مقامی تھانے کے بالکل قریب واقع ہے۔
27 سالہ وسیم باری کا تعلق شمالی ضلع بانڈی پورہ سے تھا، جو پارٹی کے ضلعی صدر تھے جبکہ ان کے والد بشیر احمد اور بھائی شیخ عمر بھی بی جے پی کے لیے ہی کام کرتے تھے۔ وسیم باری کو حکومت نے دس محافظ(ایس پی او) دے رکھے تھے لیکن پولیس کا کہنا ہے کہ جب یہ واقعہ پیش آیا تو ان کے ساتھ کوئی بھی موجود نہیں تھا۔ حکام نے ان کی سکیورٹی پر تعینات اہلکاروں کو گرفتارکرنے کا حکم دیا ہے۔ اس حملے اور قتل کو کشمیر میں سکیورٹی کی ناکامی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
پولیس کے مطابق اس واقعہ کے دو گھنٹے کے اندر ہی ایک سینئر وزیر نے اپنی ایک ٹویٹ کے ذریعے اطلاع دی کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے فون پر کشمیری انتظامیہ سے بات چیت کی ہے اور اس قتل سے متعلق انکوائری کی ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ ''وزیراعظم نے ہلاکت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے متاثرین کے اہل خانہ سے تعزیت کی ہے۔''
بی جی پی کے صدر جے پی نڈا اور جنرل سکریٹری رام مادھو جیسے کئی سرکردہ رہنماؤں اور بعض دیگر سیاسی قائدین نے بھی اس واقعے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اس کی مذمت کی۔ لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کشمیر میں تشدد کوئی نئی بات تو نہیں ہے۔ چند روز قبل ہی پلوامہ میں ایک عام شہری کو سر عام گولی مار کر ہلاک کردیا گیا تھا۔ متاثرین کے اہل خانہ کا الزام ہے کہ بھارتی سکیورٹی فورسز نے انہیں قتل کیا جبکہ بھارتی فورسز اس کی ذمہ داری عسکریت پسندوں پر عائد کرتی ہے۔
بی جے پی لیڈر کی ہلاکت پر کشمیر میں یہ سوال بھی پوچھا جارہا ہے کہ ایک شہری کی ہلاکت پر بھارتی وزیر اعظم کو اتنی تشویش ہوتی ہے کہ واقعے کے ایک گھنٹے کے اندر ہی وہ انتظامیہ سے بات چیت کر لیتے ہیں تو پھر اسی طرح کی دوسری ہلاکتوں پر خاموشی کا پہرہ کیوں ہوتا ہے؟ جموں و
کشمیر میں بی جی کے صدر اشوک کول سے جب ڈی ڈبلیو نے یہ سوال کیا تو انہوں کہا کہ ایسا نہیں ہے اور بی جے پی ایسے تمام واقعات کی مذمت کرتی ہے۔ لیکن، ''چونکہ یہ اس سیاسی جماعت کے رکن کا معاملہ ہے جو اس وقت اقتدار میں ہے، تو جس کے لیے وہ بیٹے کی طرح ہو تو اس کے لیے افسوس تو ہوتا ہی ہے۔''
سرینگر میں انسانی حقوق کے کارکن خرم پرویز کہتے ہیں کہ بھارتی حکومت کا دعوی تھا کہ دفعہ 370 کا خاتمہ انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے کیا گیا تھا لیکن یہ سراسر جھوٹ ہے۔کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بڑھتی جا رہی ہیں۔ ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت میں انہوں نے کہا، ''حکومت کی جانب سے اس طرح کی تشویش سیاسی ہے، اس کا انسانی حقوق سے کچھ بھی لینا دینا نہیں ہے۔اب عام انسان اپنے آپ کو پہلے سے کہیں زیادہ غیر محفوظ محسوس کرتا ہے۔''
ان کا کہنا تھا کہ چونکہ اس کیس کا تعلق بی جے پی کے کارکن سے ہے اس لیے تھوڑا شور ہوگا تاہم تفتیش نہیں ہوگی کیونکہ حکومت پہلے کہہ چکی ہے کہ شدت پسندوں نے مارا ہے۔ ''کل کو یہ کسی کا انکاؤنٹر کریں گے اور کہیں گے جو وسیم باری کے قتل میں ملوث تھا اسے مار دیا گیا ہے۔''
انہوں نے کہا کہ کشمیر میں کبھی بھی، ''بھارتی حکومت کی ترجیح عدل و انصاف نہیں رہا ہے بلکہ اس کی ترجیح کنٹرول ہے۔ کشمیر میں روزمرہ کی زندگی پر قابو کیسے پایا جائے یہ اس کی اولین ترجیح ہے۔ اس کنٹرول کے لیے انصاف بھاڑ میں جائے حکومت اس کی پرواہ نہیں کرتی ہے۔''
خرم پرویز کا کہنا ہے حکومت اب اس طرح کے معاملات میں تفتیش اور عدالتی چارہ جوئی کے بجائے انتقام لینے کی بات کرتی ہے۔انہوں نے کہا کہ کوئی یہ نہیں کہتا کہ انصاف کریں گے بلکہ کشمیر میں حکام کھل کر کہتے ہیں کہ انتقام لیں گے۔ ''عدل و انصاف اور تفتیشی دارے عدالتیں اور پولیس بھی اب اس کی پراوہ نہیں کرتیں۔ عدالتیں بھی مقدمہ چلانا بھول گئی ہیں اور انصاف کا پورا نظام مفلوج ہو کر رہ گیا ہے۔''
بی جے پی کے رہنما اشوک کول تاہم خرم پرویز کے خیالات سے متفق نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ دفعہ 370 کے خاتمے کے بعد پتھر بازی اور تشدد میں کمی آئی ہے۔ ''ہر معاملے کی تفتیش کی جاتی ہے اور حالات اب پہلے سے بہتر ہیں۔''