کشمیر میں دوبارہ جھڑپیں، پانچ مظاہرین ہلاک، بیس سے زائد زخمی
16 اگست 2016بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں نوجوان عسکری لیڈر برہان وانی کی ہلاکت کے بعد سے شروع ہونے والے احتجاجی مظاہروں میں ہلاک ہونے والے کشمیریوں کی مجموعی تعداد 63 تک پہنچ گئی ہے۔ اگرچہ پوری وادیٴ کشمیر میں کرفیو نافذ ہے لیکن اس کے باوجود وہاں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ منگل کو بھی مختلف علاقوں میں احتجاجی مظاہرہ کرتے ہوئے ہزاروں افراد نے حکومت اور بھارت مخالف نعرے لگائے۔
بعض مظاہرین نے سکیورٹی فورسز پر پتھراؤ بھی کیا جبکہ سکیورٹی فورسز کی جانب سے بھی طاقت کا استعمال کیا گیا۔
منگل سولہ اگست کو سکیورٹی فورسز نے ضلع بڈگام کے مضافات میں پتھر پھینکنے والے نوجوانوں کے ایک گروپ پر اس وقت فائرنگ کر دی، جب مظاہرین نے راستے میں رکھی ہوئی ایک رکاوٹ کو توڑ دیا۔ مقامی پولیس کے مطابق اس واقعے میں کم از کم چار افراد ہلاک جبکہ دس زخمی ہو گئے۔ ان ہلاکتوں کی خبر عام ہوتے ہی کشمیریوں کی ایک بڑی تعداد سڑکوں پر نکل آئی اور ’جاؤ جاؤ بھارت واپس جاؤ‘ اور ’ہم آزادی چاہتے ہیں‘ جیسے نعرے لگانا شروع کر دیے۔
اسی طرح تشدد کا ایک واقعہ ضلع اننت ناگ میں پیش آیا، جب سکیورٹی فورسز نے ایک مشتعل ہجوم کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی۔ پولیس نے اس واقعے میں ایک کشمیری کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔
نئی دہلی حکومت کا کہنا ہے کہ کشمیریوں کی اس ’پُرتشدد تحریک‘ کو پاکستان مدد فراہم کر رہا ہے جبکہ پاکستان اس بھارتی دعوے کو مسترد کرتا ہے۔ پاکستان کا کہنا ہے کہ وہ کشمیریوں کی سفارتی اور سیاسی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے اور وہ اس سے کبھی بھی پیچھے نہیں ہٹے گا۔ پاکستان کشمیر کے باغیوں کا حریت پسند قرار دیتا ہے۔
نیوز ایجنسی اے پی کے مطابق بھارت کے زیر کنٹرول کشمیر میں حکومت مخالف جذبات میں انتہائی اضافہ ہو چکا ہے اور اس کی ایک بڑی وجہ اس خطے میں باغیوں سے نمٹنے کے لیے بھارتی فوج کی نفری میں اضافہ بھی ہے۔ بھارتی سکیورٹی فورسز کو خاص حالات میں تلاشی لینے، مشتبہ افراد کو گرفتار کرنے اور یہاں تک کہ مشتبہ افراد کو دیکھتے ہی گولی مارنے تک کے اختیارات حاصل ہیں۔