کشمیر میں 'سائیبر کرفیو' کے پانچ ماہ
7 جنوری 2020پانچ ماہ کی ان پابندیوں سے ہر سطح پر کاروبار متاثر ہوا جس سے ریاست کی معشیت تباہ ہوکر رہ گئی ہے۔ کشمیری ایوان صنعت و تجارت کے صدر شیخ عاشق کا کہنا ہے کہ حکومت کی بندشوں اور پابندیوں سے کشمیر کی تمام صنعتیں دم توڑ رہی ہیں اور ایک بڑا طقبہ بے روزگار ہوکر رہ گيا ہے۔
انہوں نے کہا، "اب تک تقریبا اٹھارہ ہزار کروڑ روپے کا نقصان ہو چکا ہے۔ پہلے حکومت نے دفعہ 144 نافذ کی، پھر عوام نے بھی غصے میں رد عمل کے طور پر ساڑھے چار ماہ تک بازاروں کو بند رکھا اور اب کھلے بھی ہیں تو انٹرنیٹ نہیں ہے۔"
بھارتی حکومت کا موقف ہے کہ سکیورٹی کے خدشات کے پیش نظر یہ پابندیاں ضروری ہیں۔ لیکن سابق وزیر خارجہ اور بی جے پی کے سابق رہنما یشونت سنہا کے مطابق کشمیر کے "لوگوں میں بہت غصہ ہے اور وہ حکومت سے مقابلہ کرتے رہے ہیں گے۔ انہیں اتنا بڑا زخم دیا گيا ہے جس کا فوری علاج ممکن نہیں۔"
کشمیر کے انت ناگ حلقے سے رکن پارلیمان اور نیشنل کانفرنس کے سرکردہ رہنما جسٹس حسنین مسعودی کہتے ہیں کہ اتنی طویل پابندی کا کوئی جواز نہیں۔ یہ تمام کشمیریوں کو اجتماعی طور پر سزا دینے کے مترادف ہے۔"
کشمیر میں بیشتر سماجی و سیاسی سرگرمیاں پوری طرح ٹھپ ہیں اور لوگوں میں خوف و ہراس کا ماحول ہے۔ جسٹس حسنین مسعودی کہتے ہیں کہ حکومت کشمیر میں حالات کو معمول کے مطابق بتاتی ہے لیکن اگر ایسا ہے تو پھر ریاست کے تین سابق وزار اعلی سمیت متعدد رہنما نظر بند کیوں ہیں؟
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ "جب سیاسی رہنما آزاد ہوں گے تو عوام کے حقوق کی بازیابی اور کشمیر کی خود مختاری کے لیے آواز اٹھےگی۔ کشمیری آئین کی بحالی کے لیےآواز بلند ہوگي۔''
کشمیر ہائی کورٹ کے ایک سرکردہ وکیل اور سماجی کارکن سید ریاض خاور کہتے ہیں کہ لوگ خاموش ہیں لیکن ان کے دلوں میں ایک غصہ ابل رہا ہے جو موقع کے انتظار میں ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "یہ خاموشی کسی بھی وقت ٹوٹ سکتی ہے، سبھی اس غصے کا اظہار کرنا چاہتے ہیں۔"