کشمیر میں ’سرخ سونے‘ کی فصل کو لاحق خطرات
24 دسمبر 2020بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں گزشتہ دو عشروں سے موسم خشک ہوتا جا رہا ہے اور موسمیاتی تبدیلیاں براہ راست دنیا کے مہنگے ترین مصالحے زعفران کی پیداوار کو متاثر کر رہی ہیں۔ کشمیر میں زعفران ہی وہ فصل ہے، جس نے ڈھائی ہزار سال پہلے یہاں کے لوگوں کے لیے دولت کے دروازے کھولے تھے۔ جموں و کشمیر کے مغرب میں واقع قصبہ پمپور زعفران کی پیداوار کے لیے مشہور ہے اور اسی مناسبت سے اسے کشمیر کا 'زعفرانی قصبہ‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اس علاقے سے تعلق رکھنے والے عبدالاحد میر کہتے ہیں، ''ان کھیتوں کو سونے کی کانیں سمجھا جاتا تھا۔‘‘
میر کا خاندان کئی نسلوں سے اس کاروبار سے منسلک ہے۔ وہ ماضی اور حال میں فرق بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں، ''میرے بچپن میں ہمیں پھول جمع کرنے کے لیے کم از کم اسی افراد درکار ہوتے تھے اور وہ ایک ہفتے تک یہ کام کرتے تھے۔ آج میرے خاندان کے چھ لوگ ایک دن میں ہی سارے پھول جمع کر لیتے ہیں۔‘‘
اس خطے میں آب و ہوا کی تبدیلی کی وجہ سے بارشیں کم اور درجہ حرارت میں اضافہ ہونا شروع ہو چکا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ زعفران کے کھیت پیاسے ہی رہ جاتے ہیں۔ دوسری جانب ہمالیہ کے خطے میں گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں اور پانی کا وہ بہاؤ، جو مختلف ندی نالوں میں سارا سال رہتا تھا، اب تیزی سے کم ہوتا جا رہا ہے۔
ایک کلوگرام زعفران کے لیے تقریباﹰ ایک لاکھ ساٹھ ہزار پھولوں کو جمع کرنا پڑتا ہے۔ مقامی مارکیٹ میں ایک کلوگرام زعفران کی قیمت تقریباﹰ تیرہ سو پچاس امریکی ڈالر کے برابر ادا کی جاتی ہے۔
مسلسل کم ہوتی ہوئی پیداوار
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سن دو ہزار اٹھارہ میں اس 'سرخ سونے‘ کی فی ہیکڑ پیداوار ایک اعشاریہ چار کلوگرام رہی۔ اگر اس کا موازنہ سن انیس سو اٹھانوے میں فی ہیکٹر پیداوار سے کیا جائے، تو یہ مقدار نصف ہو چکی ہے۔ ایک دوسرے کاشت کار محمد رمضان کا کہنا تھا کہ ان کی زمین پر رواں سال صرف تیس گرام زعفران پیدا ہوا جبکہ بارہ برس قبل وہ اسی زمین سے تقریباﹰ دو کلوگرام زعفران حاصل کرتے تھے۔
زعفران کے پھول خزاں کے اختتام پر تقریباﹰ دو ہفتوں کے اندر اندر چُنے جاتے ہیں لیکن رواں برس کورونا وائرس کی وبا اور کشمیر میں سیاسی کشیدگی کے بعد حکومت کی طرف سے نافذ کردہ لاک ڈاؤن نے بھی اس فصل کی پیداوار کو متاثر کیا ہے۔
زعفران کا استعمال
مؤرخین کے مطابق کشمیر میں زعفران کی کاشت کم از کم بھی پانچ سو سال قبل از مسیح سے جاری ہے۔ مقامی سطح پر زعفران مختلف کھانوں کے ساتھ ساتھ قہوے میں بھی استعمال کیا جاتا ہے لیکن ایسا شادیوں جیسے خاص مواقع پر ہی ہوتا ہے۔
عالمی منڈی میں کشمیری زعفران کو نہ صرف کھانوں بلکہ میک اپ مصنوعات میں بھی استعمال کیا جاتا ہے اور اس کی قیمت دس ہزار ڈالر فی کلوگرام تک ادا کی جاتی ہے۔ دنیا میں نوے فیصد زعفران ایران میں پیدا ہوتا ہے لیکن کشمیری زعفران کو اس کے گہرے رنگ اور بہتر خوشبو کی وجہ سے اعلیٰ معیار کا حامل قرار دیا جاتا ہے۔
بھارتی حکومت کا 'ناکام منصوبہ‘
سن دو ہزار دس میں بھارتی حکام نے موسمیاتی تبدیلیوں کا ادراک کرتے ہوئے کسانوں کے لیے چون ملین ڈالر کا ایک فنڈ قائم کیا تھا اور اس کا مقصد نئی زرعی ٹیکنالوجی متعارف کرانا تھا۔بھارتی حکومت کے مطابق یہ ایک کامیاب پروگرام تھا اور اس طرح کشمیر کی سینتیس سو ایکڑ زمین کو زعفران کے کھیتوں میں تبدیل کیا گیا لیکن مقامی کسان اس حکومتی دعوے سے اتفاق نہیں کرتے۔
مقامی کسانوں کے مطابق اس پروگرام کے تحت پلاسٹک کے باریک پائپ کھیتوں تک لائے گئے تھے لیکن ان کے ذریعے کھیتوں تک پانی لانا ہی ایک مشکل امر ہے۔ کچھ دیگر کسانوں کا کہنا ہے کہ اس سکیم کے تحت زعفران کے نئے بیج متعارف کرائے گئے اور انہوں نے ان کی فصلوں کو تباہ کر کے رکھ دیا۔
مقامی کسان جلال الدین وانی کا کہنا ہے کہ کچھ کسان اپنی زمین کو باغات میں تبدیل کر رہے ہیں کیونکہ سیب کے درختوں کو کم پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت کی مداخلت ناکام ہوئی ہے لیکن کسان اب بھی روایتی طریقے سے زیادہ فصل حاصل کر سکتے ہیں، ''اب بھی فصلوں کو دوبارہ جاندار بنانے کی کچھ امید تو باقی ہے۔‘‘
ا ا / م م ( اے ایف پی)