کشمیر: کرفیو کا گیارہواں روز، ادویات کی قلت
19 جولائی 2016بھارتی سکیورٹی فورسز کے مابین ہونے والی جھڑپوں کے نتیجے میں ہلاکتوں کی مجموعی تعداد پینتالیس تک پہنچ گئی ہے۔ دوسری جانب دوکانداروں کا کہنا ہے کہ ان کے پاس ضروریات کا سامان ختم ہوتا جا رہا ہے کیوں کہ کرفیو کی وجہ سے سامان والے ٹرک علاقے تک نہیں پہنچ پا رہے۔
سری نگر کے پرانے حصے میں میڈیکل اسٹور چلانے والے نذیر احمد کا نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’ادویات کے بغیر لوگ مشکلات کا شکار ہیں۔ بہت سے لوگوں کو اس وقت ذیابیطس، ہائی بلڈ پریشر اور اینٹی ڈپریشن ادویات کی اشد ضرورت ہے۔
نذیر احمد کا مزید کہنا تھا کہ ٹرکوں کو مرکزی سڑکوں سے دور دراز ہی کہیں کھڑا کر دیا جاتا ہے اور انہیں پانچ کلومیٹر دور ایک گودام سے اشیاء لینے کے لیے پیدل جانا پڑتا ہے۔
احمد کا ایک پلاسٹک کے تھیلے میں ادویات لے جاتے ہوئے کہنا تھا، ’’باہر سے تازہ ادویات بالکل بھی نہیں پہنچ رہیں جبکہ جو کچھ میرے پاس ہے وہ بھی دو سے تین دن میں ختم ہو جائیں گی۔‘‘
گزشتہ گیارہ روز سے کشمیر میں عائد کرفیو کی وجہ سے بازار بند ہیں اور نظام زندگی مفلوج ہو کر رہ گیا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ ان اقدامات کا مقصد ان احتجاجی مظاہروں کا خاتمہ ہے، جن کا آغاز کشمیر کے ایک مشہور نوجوانٰ باغی لیڈر کی ہلاکت کے بعد ہوا تھا۔
برہان وانی بھارتی سکیورٹی فورسز کے ساتھ دو طرفہ فائرنگ کے نتیجے میں ہلاک ہوا تھا اور وہ اس خطے کے سب سے بڑے علیحدگی پسند گروپ حزب المجاہدین کے کمانڈر تھے۔
نئی دہلی حکومت کے خلاف حالیہ احتجاجی مظاہرے سن 2010 کے بعد سے سب سے بڑے احتجاجی مظاہرے تھے۔ تشدد کی تازہ ترین کارروائی میں دو کشمیری پیر کے روز اس وقت ہلاک ہوئے، جب مظاہرین حکومتی فورسز پر پتھر پھینک رہے تھے اور بھارتی افواج نے ان پر فائرنگ شروع کر دی۔ بھارتی فوج کی طرف سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے، ’’فوجیوں کو مجبوراً اس وقت فائرنگ کرنا پڑی جب ایک ہجوم پرتشدد ہو گیا اور اس نے فوجیوں سے ہتھیار چھیننے کی کوشش کی۔‘‘ تاہم بھارتی فوج کی جانب سے ان ہلاکتوں پر افسوس کا اظہار کیا گیا ہے۔
دریں اثناء سرینگر کے مختلف حصوں میں منگل کے روز مقامی خیراتی اداروں کے رضاکاروں کی طرف سے گھر گھر جا کر ضرورت مند افراد کو خوراک بھی مہیا کی گئی۔
ہائی بلڈ پریشر اور دل کے عارضے میں مبتلا ایک بزرگ خاتون کا کہنا تھا کہ انہیں امید ہے کہ کوئی ادویات بھی انہیں لا دے گا۔ اپنے گھر کے سامنے کھڑی اسی سالہ نوراں کا کہنا تھا، ’’ میری ادویات ختم ہو چکی ہیں۔ رضاکار تو آئے تھے لیکن ان کے پاس میری ضرورت کی ادویات نہیں تھیں۔
اس خاتون کے بیٹے غلام نبی کا کہنا تھا، ’’ہم اپنے گھر میں قید ہیں۔‘‘ بھارتی فورسز کی طرف سے استعمال کی جانے والی آنسو گیس اور پیپر سپرے کی وجہ سے بچے تک بیمار ہو رہے ہیں۔
دوسری جانب انٹرنیٹ اور فون کی سہولیات بھی صرف چند حصوں میں دستیاب ہیں۔