کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم، سوشل میڈیا پر طوفان
5 اگست 2019اس طرح بھارت کے دیگر علاقوں کے باسیوں پر دہائیوں پرانی اس پابندی کا خاتمہ ہو گیا ہے، جس کے تحت وہ کشمیر کے خطے میں نہ مستقل سکونت اختیار کر سکتے تھے اور نہ ہی وہاں مکان یا جائیداد خریدنے کے مجاز تھے۔
اس موضوع پر پاکستان اور بھارت کے صارفین کے درمیان اختلافِ رائے واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے، جس میں ایک طرف بہت سے پاکستانی صارفین اس بھارتی اقدام کی شدید مذمت کر رہے ہیں، تو دوسرے بھارتی سوشل میڈیا صارفین کا ایک طبقہ اسے ایک تاریخی اقدام قرار دے کر جشن منانے میں مصروف ہے۔
پاکستانی دفتر خارجہ کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں اس بھارتی اقدام کی مذمت کی گئی ہے۔
ایک بھارتی صارف امن یادو نے بھارتی ارب پتی شخصیت کے حوالے سے لکھا، ''امبانی کشمیر میں جائیداد خریدنے جا رہے ہیں۔‘‘
ایک اور بھارتی صارف جیانتا مترا لکھتے ہیں، ''آرٹیکل تین سو ستر ختم کر دیا گیا ہے۔ ہم اس فیصلے پر خوش ہیں۔ جو ستر سال تک حکومتیں نہ کر پائیں، وہ آپ نے کر دکھایا۔ یہ سنگ میل عبور کرنے پر امیت شاہ کو مبارک باد۔‘‘
دوسری جانب پاکستانی سوشل میڈیا صارفین میں سے کئی ملکی حکومت اور سیاست دانوں پر تنقید کر رہے ہیں کہ اس موقع پر ان کی جانب سے ردعمل کم زور رہا۔
سوشل میڈیا صارف احتشام الحق لکھتے ہیں، ''جب بھارت کی سیاسی قیادت متحد تھی، ہماری سیاسی قیادت تقسیم کا شکار تھی۔‘‘
پاکستانی سماجی کارکن عمار علی جان نے اپنے ایک ٹویٹ میں لکھا، ''بھارتی زیرانتظام کشمیر کے اہم قائدین گھروں میں نظربند ہیں۔ فون اور انٹرنیٹ سروسز معطل ہیں۔ واضح طور پر لگتا ہے کہ بھارت جنگی جرائم کی تیاری میں مصروف ہے۔ اس پر بین الاقوامی برداری کی مجرمانہ خاموشی برقرار ہے۔ شرم ناک!‘‘