شورش زدہ علاقہ ہونے کی وجہ سے ویسے ہی پچھلے تیس برسوں میں خواتین سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہیں۔ شورش سے نمٹنے کے لیے جب نوے کی دہائی میں حکومت اور سکیورٹی اداروں نے مبینہ طور اخوان نام سے سویلین فورس بنا کر ان کو لوٹ مار اور تلاشیوں کی کھلی چھوٹ دی، تو خاص طور پر دیہی علاقوں میں اس فورس نے سب سے پہلے خواتین کو ہی نشانہ بنایا۔
ان کو گھروں سے اٹھا کر اغوا کر کے زیادتی کا نشانہ بنانا تو معمول سا تھا اور کہیں پوچھ تاچھ نہیں تھی۔ مگر اس سے بھی زیادہ ظلم یہ ہے کہ خواتین کو گھریلو تشدد کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ گالی گلوچ، مار پیٹ، زیادتی، جائیداد سے بے دخل کرنا جیسے لاتعداد جرائم ہیں، جو خواتین کو بھگتنے پڑ رہے ہیں۔
مجھے یاد ہے کہ 2009ء میں سری نگر کے ایک پوش علاقے کی مکین ایک اسسٹنٹ پروفیسر نے سسرال میں ظلم و ستم و طعنوں سے تنگ آ کر گلے میں پھندا لگاکر خودکُشی کر لی تھی۔ اس کو انصاف دلانے کے لیے میں بھی دیگر خواتین کے ساتھ ان کی گھر گئی اور پھر پریس کالونی میں احتجاج درج کروانے کے لیے کینڈل مارچ میں حصہ لیا۔ مگر یہ طوفان تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے۔ انسان ایک ایسی واحد مخلوق ہے، جو اپنی مادہ پر اس قدر تشدد اور اس کو حقیر تصور کرتا ہے، چاہے وہ زندگی میں کتنی ہی کامیاب پروفیسر ہی کیوں نہ ہو۔
سن 2019ء میں جنوبی کشمیر کے اننت ناگ ضلع کی ایک بتیس سالہ خاتون نے خودکُشی کرنے سے قبل اپنا ایک ویڈیو مسیج ریکارڈ کیا، جس سے شقی القلب انسان کا کلیجہ بھی شق ہو جاتا ہے۔ اس نے بتایا کہ کس طرح اس کے سسرال والے اس کو تنگ کرتے تھے اور کئی بار اس کو زند جلانے کی کوشش بھی کی گئی۔
اس پر پولیس نے ان کے خلاف کیس بھی رجسٹر کیا مگر وہ پھر بھی باز نہیں آئے۔ اسی طرح چند ماہ قبل ایک اٹھائیس سالہ دو بچوں کی ماں کو مبینہ طور پر سسرال والوں نے زندہ جلا دیا تھا۔ وہ اسی فیصد جھلس گئی اور اس وقت ہسپتال میں موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہے۔ اسی طرح پچھلے سال دسمبر میں شمالی کشمیر کے بانڈی پورہ علاقے کی ایک خاتون اپنے گھر پر مشکوک حالت میں مردہ پائی گئی۔
ویسے بھی اس خطے میں جنسی تناسب فی ہزار مرد پر بس 889 ہے۔ سن 2011ء کی مردم شماری کے مطابق بھارت میں یہ تناسب مجموعی طور پر 949 ہے۔ یعنی کشمیر کی آبادی میں خواتین کا تناسب بس 47.05 فیصد ہے۔
کتنی ستم ظریفی ہے کہ پہلے تو بچیوں کو رحم مادر میں ہی قتل کرنے کا رجحان پایا جاتا ہے اور اگر وہ دنیا میں آنے میں کامیاب بھی ہوتی ہیں تو پھر سماجی زندگی میں ان کا جینا دوبھر کر دیا جاتا ہے۔ کشمیر میں ایک مسلم معاشرہ ہونے کے باوجود خواتین کو بہت چھوٹی عمر سے ہی تشدد کو برداشت کرنے کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔ میں نے کئی ایسے مردوں کو دیکھا ہے، جو اپنی بیویوں کو تشدد کا نشانہ بناتے ہیں، جس سے یا تو وہ ہسپتال پہنچ جاتی ہیں یا واپس اپنے میکے آ جاتی ہیں۔
خواتین زیادہ تر تشدد کا شکار اس لیے ہوتی ہیں کیونکہ ہمیں معاشرہ مردوں کے مقابلے میں کمزور بناتا ہے۔ اور اگر ہم خاموشی سے تکلیف اٹھانے سے انکار کرتے ہیں تو ہمیں ''عوامی اخلاقیات'' کے غضب کا سامنا کرنا پڑے گا، جو خواتین کے تشدد کا نشانہ بننے کے باوجود خود خواتین پر خواتین کی حفاظت اور تحفظ کا بوجھ ڈالتا ہے۔
مجھے یاد ہے کہ کس طرح اسکول اور کالج میں لڑکوں کی طرف سے کیٹ کالز کرنا، گھورنا، ٹٹولنا، پیچھا کرنا کس قدر عام ہوتا تھا۔ ہمارے معاشرے میں خواتین کو مردوں کے برتاؤ اور ان کی گستاخیوں کو نظر انداز کرنے کو کہا جاتا ہے۔ یہ ہمارے معاشرے کا نقطہ نظر ہے، جو مردوں کو خواتین کے خلاف تشدد کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ سوال ہے کہ کیا عورتیں، مردوں کے مقابلے میں کم تر انسان ہیں اور وہ اپنے خلاف تشدد کو اپنا انجام کیوں تسلیم کرتی ہیں؟
مرد جانتے ہیں کہ عورت کے پاس بھاگنے کے لیے کہیں جگہ نہیں ہے۔ اگر کوئی عورت مالی طور پر خود مختار بھی ہو، اس کے باوجود وہ سماجی اصولوں کے تحت متشدد شادی کو برداشت کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے کیونکہ ہمارا معاشرہ طلاق یافتہ خواتین کے لیے اپنے طور پر باوقار زندگی گزارنا مشکل بنا دیتا ہے۔
گھر والے بھی اپنی بیٹیوں کو بدتمیز شوہروں اور سسرالیوں کو برداشت کرنے کا سبق دیتے ہیں۔ بجائے اس کے کہ وہ ان کے شوہروں کو جوابدہ بنائیں اور ان کو تمیز سکھائیں، وہ بیٹیوں کو ہی برداشت کرنے پر آمادہ کرتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ کام کرنے والی اور کمانے والی خواتین کا درجہ بلند ہونا چاہیے تھا مگر ان کو اپنی فرمانبرداری اور وفا داری کچھ زیادہ ہی ثابت کرنی پڑتی ہے۔
باہر دفتر میں کس سے بات کرتی ہیں، کس کے ساتھ ہنس بول لیتی ہیں، کا پورا کچا چھٹا شوہر اور ساس معلوم کرتی رہتی ہیں اور موقع بے موقع طنز کے تیر برسا کر طعنوں سے نوازتی رہتی ہیں۔ دراصل یہ پوری سوسائٹی کی بیمار ذہنیت ہے، جو مردوں اور سسرال والوں کو اس طرح کا برتاؤ کرنےکی اجازت دیتی ہے۔
اگرچہ مرد اپنی زندگی کے حوالے آزاد ہیں، خواتین کو والدین اور سماجی اصولوں کے تابع رہنا پڑتا ہے۔ مرد خواتین کے برعکس یہ انتخاب کر سکتے ہیں کہ کہاں کام کرنا ہے اور کہاں آزادانہ تعلیم حاصل کرنی ہے۔ یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ جموں و کشمیر میں خواندگی کا تناسب مردوں میں75 سے 76 فیصد اور خواتین میں محض 43 سے 56 فیصد کے درمیان ہے۔ یہ تفاوت کشمیر میں سماجی زندگی کے متعدد میدانوں میں ظاہر ہوتا ہے۔
اسی طرح کشمیر میں خواتین کو ان میکانزم تک رسائی حاصل نہیں ہے، جہاں وہ مدد کے لیے رابطہ کر سکتی ہیں۔ کشمیر کے زیادہ تر تھانے مردوں کے زیر اثر ہیں اور خواتین اپنے خلاف تشدد کے واقعات کو رپورٹ کرنے سے ہچکچاتی ہیں۔ کشمیر میں پولیس فورس کو خواتین کی مدد کے لیے بہت کم وقت اور وسائل دستیاب ہیں۔ ایک ایسا معاشرہ، جو خواتین کا احترام نہیں کرتا اور خواتین کو کمزور بناتا ہے، اس کا ناکام ہونا لازمی ہے۔ اور کشمیر کے تناظر میں معاشرے کو یہ سمجھنا ہو گا کہ حقیقی آزادی ہر فرد کے وقار اور عزت کو برقرار رکھنے میں ہے۔ نہ کہ صنف نازک پر ظلم و ستم ڈھانے سے۔ ایک صحت مند معاشرہ، خواتین کا مرہون منت ہے۔