کشمیری انسانی حقوق کے کارکن کو رہا کیا جائے، اقوام متحدہ
2 دسمبر 2021اقوام متحدہ نے یکم دسمبر بدھ کے روز بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں انسانی حقوق کے ایک سرکردہ کارکن خرم پرویز کی، ’انسداد دہشت گردی‘ جیسے سخت قوانین کے تحت گرفتاری پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ان کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔
انسانی حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے ’کمشنر برائے انسانی حقوق‘ (او ایچ سی ایچ آر) نے اپنے ایک بیان میں کہا، ’’ہمیں کشمیری انسانی حقوق کے محافظ خرم پرویز کی انسداد دہشت گردی جیسے بھارتی قانون (یو اے پی اے) کے تحت گرفتاری پر گہری تشویش ہے۔‘‘
کشمیر میں لاگو غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے ایکٹ (یو اے پی اے) کے تحت کسی بھی شخص کو مہینوں بغیر کسی سماعت کے جیل میں رکھا جا سکتا ہے۔ بھارت میں بھی کئی حلقوں کی جانب سے اس سخت قانون پر نکتہ چینی ہوتی رہی ہے اور اب اقوام متحدہ نے بھی اس قانون میں ترمیم کا مطالبہ کیا ہے تاکہ اسے بین الاقوامی انسانی حقوق کے قانون اور معیار کے مطابق بنایا جا سکے۔
ادارے کے ترجمان روپرٹ کولوائل کا کہنا تھا کہ وہ اس بات سے ابھی لا علم ہیں کہ خرم پر کس نوعیت کے الزامات عائد کیے گئے ہیں تاہم، ’’یہ سچ ہے کہ وہ انسانی حقوق کے ایک سچّے محافظ ہیں اور س سے قبل بھی انسانی حقوق کے کاموں کے لیے انہیں نشانہ بنایا جا چکا ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا، ’’سن 2016ء میں بھی جنیوا میں انسانی حقوق کی کونسل کے سفر کے لیے انہیں روک دیا گیا تھا اور ایک متنازعہ قانون پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت ڈھائی ماہ تک انہیں حراست میں رکھا گیا تھا۔ پھر جب جموں و کشمیر ہائی کورٹ نے ان کی نظر بندی کو غیر قانونی قرار دیا تب انہیں رہا کیا گیا تھا۔‘‘
خرم پرویز انسانی حقوق کے معروف کارکن
خرم پرویز انسانی حقوق کے عالمی شہرت یافتہ کارکن ہیں، جنہیں اب تک کئی بین الاقوامی اعزازات سے بھی نوازا جا چکا ہے۔ 44 سالہ خرم پرویز جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی تنظیم 'جموں کشمیر کولیشن آف سول سوسائٹی‘ (جے کے سی سی ایس) کے پروگرام کوآرڈینیٹر اور 'ایشین فیڈریشن اگینسٹ ان والینٹیری ڈس اپیرنسیز‘ (اے ایف اے ڈی) کے چیئر پرسن بھی ہیں۔
انہیں 22 نومبر کو بھارت کی قومی تفتیشی ایجنسی این آئی نے دہشت گردی کی مالی معاونت جیسے الزام میں گرفتار کیا تھا اور پھر تفتیش کے لیے دہلی لایا گيا جہاں انہیں تہاڑ جیل میں رکھا گيا ہے۔
حراست میں اذیت کے خلاف مہم چلانے والی بین الاقوامی تنظیم ’ورلڈ آرگنائزیشن اگینسٹ ٹارچر‘ (او ایم سی ٹی) کا کہنا ہے کہ اسے ان پر، ’’ممکنہ طور پر حراست کے دوران ہونے والے تشدد کے بارے میں گہری فکر لاحق ہے۔‘‘ او ایم سی ٹی 200 سے زیادہ غیر سرکاری تنظیموں یا این جی اوز پر مشتمل ایک عالمی نیٹ ورک ہے۔
خرم پرویز کشمیر میں حقوق انسانی کی جن تنظیموں سے وابستہ ہیں وہ اس متنازعہ خطے میں گزشتہ تین دہائیوں سے زیادہ عرصے سے جاری تشدد اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تفصیلات جمع کر رہی ہیں۔ ان کی تنظیم نے بھارتی فورسز کی شہریوں کے خلاف مبینہ زیادتیوں، ماورائے عدالت قتل کے واقعات اور بڑے پیمانے پر نامعلوم قبروں سے متعلق متعدد رپورٹیں تیار کی ہیں۔
گزشتہ ہفتے بھی اس تنظیم نے سری نگر میں مبینہ عسکریت پسندوں کے خلاف فائرنگ کے واقعے کے دوران سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں شہریوں کی ہلاکت اور خاندان کے کسی فرد کی شرکت کے بغیر کسی نامعلوم مقام پر آناً فاناً ان کی تدفین کر دینے کے عمل پر نکتہ چینی کی تھی۔ اس واقعے کے خلاف زبردست احتجاج کے بعد بالآخر حکام کو قبر کشائی کر کے دونوں شہریوں کی لاشیں ان کے رشتہ داروں کے حوالے کرنا پڑیں۔
سویلین ہلاکتوں کی تفتیش کا مطالبہ
اقوام متحدہ نے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں حالیہ دنوں میں ہونے والی عام شہریوں کی ہلاکتوں پر بھی گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس کی تفتیش کا مطالبہ کیا ہے۔ ادارے کے مطابق رواں برس متعدد عام شہریوں کو ہدف بنا کر قتل کیا گيا ہے جس پر اسے گہری تشویش لاحق ہے۔
بیان میں کہا گيا ہے، ’’عام شہریوں کی تمام ہلاکتوں کی فوری، مکمل، شفاف، آزاد اور مؤثر تحقیقات ہونی چاہییں اور اہل خانہ کو اپنے پیاروں کا ماتم کرنے اور انصاف کے حصول کی بھی اجازت دی جانی چاہیے۔‘‘
اقوام متحدہ کے بیان کے مطابق، ’’ہم تشدد کو روکنے کی ضرورت کو تسلیم کرتے ہیں، لیکن ہم جموں اور کشمیر میں سول سوسائٹی کے کارکنوں کے خلاف وسیع کریک ڈاؤن کے اشاروں پر فکر مند ہیں۔ انسداد دہشت گردی کے وسیع تر اقدامات کا استعمال انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا باعث ہوتا ہے اور اس سے لوگوں میں مزید بے چینی بڑھنے کا خطرہ رہتا ہے۔‘‘