کشمیریوں سے اظہارِ یکجہتی، پاکستان بھر میں جلسے اور ریلیاں
20 جولائی 2016بھارت سے مذاکرات کے حامی پاکستانی وزیرِ اعظم نواز شریف نے اس موقع پر اپنے ایک بیان میں کہا، ’’کشمیر میں آزادی کی لہر کے پیشِ نظر بھارت کے پاس شکست تسلیم کرنے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے۔کشمیر میں آزادی کی تازہ لہر نہیں دبے گی اور جب اقوام آزادی کے لئے اس انداز میں اٹھتی ہیں تو کوئی بھی ان کی آزادی کا راستہ نہیں روک سکتا۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ’’پاکستان آزمائش کی ہر گھڑی میں کشمیریوں کے ساتھ کھڑا رہتا ہے اوراس رشتے کی بنیاد صرف مذہب، تہذیب یا انسانیت ہی نہیں بلکہ یہ خون کا رشتہ ہے۔‘‘
اس موقع پر ویسے تو بے شمار ریلیاں نکالی گئیں لیکن ان تمام ریلیوں میں سب سے زیادہ قابلِ ذکر ’کارروانِ تحریکِ آزادی جموں و کشمیر‘ تھا، جس کی قیادت جماعت الدعوہ کے رہنما حافظ سعید کر رہے تھے۔ یہ ریلی کل لاہور سے روانہ ہوئی تھی اور مختلف شہروں سے ہوتی ہوئی آج دوپہر راولپنڈی پہنچی ۔ ریلی کے شرکاء کا نعرے بلند کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’کشمیر کی آزادی تک جدوجہد جاری رہے گی۔‘‘ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے حافظ سعید نے کہا، ’’برہان وانی کی شہادت نے پورے کشمیر کو ایک بار پھر جہاد پر اور پوری دنیا کو کشمیر کی حمایت پر متحد کر دیا ہے۔ راولپنڈی یا اسلام آباد ہماری منزل نہیں بلکہ کشمیر کاررواں کی منزل کشمیر ہے۔‘‘
جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے کہا، ’’کشمیر پاکستان کے لئے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے اور کراچی سے لے کر چترال تک پوری پاکستانی قوم احتجاج کررہی ہے۔ انہوں نے انتہائی جذباتی انداز میں کہا کہ کشمیر کا جہاد مقدس جہاد ہے اور یہ کامیاب ہوکر رہے گا۔ بھارت کے ساتھ اس وقت تک تمام تعلقات منقطع کیے جائیں، جب تک بھارت کشمیر کو آزاد نہیں کرتا۔ ‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ سید علی گیلانی کے چار نکاتی فارمولے کو منوانے کے لئے بھارت پر دباو ڈالا جائے۔
اس موقع پر حزب المجاہدین کے رہنما سید صلاح الدین سمیت کئی جہاد و مذہبی رہنماؤں نے بھی خطاب کیا۔ یہ ریلی بعد میں اسلام آباد کے آبپارہ چوک پر ایک جلسے کی شکل اختیار کر گئی، جہاں کئی سیاسی و مذہبی قائدین نے اس سے خظاب کیا۔
یوم سیاہ پر تبصرہ کرتے ہوئے معروف تجزیہ نگار سہیل وڑائچ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’یومِ سیاہ صرف ایک علامتی اشارہ ہے کشمیریوں سے یکجہتی کرنے کا۔ میرا نہیں خیال کہ اس سے بھارت پر کوئی اثر پڑے گا۔ پاکستان یہ دن اس لئے منا رہا ہے کہ کہیں کشمیریوں میں یہ تاثر نہ ابھرے کہ وہ بالکل اکیلے ہیں۔ اس دن کو منانے کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان ان کے ساتھ کھڑا ہے اور وہ ان کو بھولا نہیں ہے۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’اس دن کو منانے کی دو وجوہات ہیں۔ ایک تو بھارتی ظلم وستم کی وجہ سے پاکستان میں کشمیریوں کے لئے ہمدردی کی ایک نئی لہر اٹھی ہے، جس کو نظر انداز کرنا آسان نہیں اور دوسرا یہ کہ آزاد کشمیر میں انتخابات ہو رہے ہیں تو اس دن کو منانے سے ن لیگ کو سیاسی فائدہ بھی ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت کی طرف نواز شریف کی پالیسی بدلتی رہی ہے۔ شروع میں وہ اس حوالے سے سخت گیر سمجھے جاتے تھے لیکن جب وہ دوسری بار وزیرِ اعظم بنے تو انہوں نے بھارت سے اچھے تعلقات استوار کرنے کی کوشش کی۔ تیسری بار بھی اقتدار میں آنے کے بعد انہوں نے بھارت سے اچھے تعلقات کی خواہش ظاہر کی، جسے امریکا، افغانستان اور مغرب میں سراہا گیا لیکن اسٹیبلشمنٹ نے اسے نا پسند کیا۔ لیکن حالیہ دنوں میں کشمیر میں بھارتی کارروائیوں کی وجہ سے وہ اب اپنا موقف سخت کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔‘‘