کم عمر لڑکیوں کا جنسی استحصال، حسین برادران کو طویل سزائیں
26 فروری 2016شیفیلڈ کی کراؤن کورٹ کی جانب سے یہ سزائیں چھبیس فروری جمعے کے روز سنائی گئی ہیں۔ بچوں کو جنسی استحصال کا نشانہ بنانے والے اس گینگ میں برطانیہ کے تین حسین برادران اور اُن کے ایک انکل کے ساتھ ساتھ دو سفید فام خواتین بھی شامل تھیں۔
یہ اسکینڈل تقریباً دو سال قبل منظر عام پر آیا تھا، جب اس انکشاف نے پوری دُنیا کو ہلا کر رکھ دیا تھا کہ مختلف جرائم پیشہ گروہوں کے ہاتھوں ایک ہزار چار سو تک بچے جنسی استحصال کا نشانہ بنے۔
نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق استغاثہ نے بتایا کہ اس چھ رکنی گروہ نے 1987ء سے لے کر سولہ سال تک کے عرصے کے دوران گیارہ سے لے کر اکیس سال تک کی عمر کے پندرہ متاثرین کا جنسی استحصال کیا۔
استغاثہ کا کہنا تھا کہ یہ گروہ کمزور قوت ارادی کی مالک لڑکیوں اور خواتین کو باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ جنسی استحصال کے لیے تیار کرتا تھا اور پھر اُن سے ایسے کام کرواتا تھا، جن سے اُن کی بے حد تضحیک ہوتی تھی یا جن میں وہ تشدد کا بھی نشانہ بنتی تھیں۔
شیفیلڈ کی کراؤن کورٹ کی جج سارہ رائٹ نے سزائیں سناتے ہوئے عدالت میں موجود ملزمان سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا:’’تم لوگوں نے جو کچھ کیا ہے، اُس کے متاثرہ افراد، اُن کے اہلِ خانہ اور پوری کمیونٹی پر تباہ کن اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ ان لڑکیوں کا بچپن اور نوعمری انہیں کبھی بھی لوٹائی نہ جا سکے گی۔ ان میں سے ہر ایک کو بے پناہ نفسیاتی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔‘‘
حسین برادران چالیس سالہ ارشد، انتالیس سالہ بشارت اور چھتیس سالہ بنارس حسین کو بالترتیب پینتیس، پچیس اور اُنیس سال کی قید کی سزائیں سنائی گئی ہیں۔ اُن کے انکل قربان علی کو دس سال تک کے لیے جیل کی سلاخوں کے پیچھے رہنا پڑے گا۔
اٹھاون سالہ سفید فام خاتون کیرن میک گریگر کو، جو نوجوان خواتین کو رہائش فراہم کرتی تھی اور پھر اُنہیں مردوں کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرنے پر مجبور کرتی تھی، تیرہ سال کی سزائے قید سنائی گئی ہے۔
ایک چھٹی ملزمہ چالیس سالہ شیلی ڈیوس بھی سفید فام ہے اور اُسے ان واقعات میں اپنے کردار کی وجہ سے اٹھارہ ماہ کی معطل سزائے قید سنائی گئی ہے۔
2014ء میں ایک تحقیقاتی رپورٹ میں یہ پتہ چلا تھا کہ سماجی تحفظ فراہم کرنے والے مراکز سے بچوں بالخصوص لڑکیوں کو اغوا کیا جاتا تھا اور پھر راتھریم میں بالخصوص ایشیائی پس منظر رکھنے والے مرد ان بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرتے تھے اور ان پر جبر و تشدد بھی کرتے تھے۔
اس رپورٹ میں پولیس، سماجی کارکنوں اور کونسلرز کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا کہ وہ اتنے بڑے پیمانے پر جنسی استحصال کوروکنے میں ناکام رہے۔ رپورٹ کے مطابق حکام کو ان واقعات کے شواہد بھی ملتے رہے لیکن انہوں نے اس ڈر سے کوئی کارروائی کرنے سے گریز کیا کہ کہیں اُنہیں نسل پرست نہ قرار دے دیا جائے۔
گزشتہ چند برسوں کے دوران برطانیہ میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے متعدد واقعات سامنے آتے رہے ہیں تاہم راتھریم کا واقعہ ان میں سب سے زیادہ ہلا دینے والا تھا۔