کم عمر لڑکیوں کی شادیاں، بھارت سب سے آگے
8 اکتوبر 2009ایک اندازے کے مطابق بھارت میں سن 2007ء میں ایسی 25 ملین بچیوں کی شادیاں ہوئیں، جن کی عمریں اٹھارہ سال سے کم تھیں۔ اس رپورٹ میں ناخواندگی، رسم ورواج اور مذہب کو کم عمری میں لڑکیوں کو بیاہ دینے کی وجوہات بتایا گیا ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ بھارت، بنگلہ دیش اور پاکستان میں کم عمری میں شادی کرنے والے متعدد بچوں کی عمریں دَس سال سے بھی کم ہوتی ہیں۔ مزید یہ کہ جنوبی ایشا میں کم عمری میں ہونے والی شادیوں کی تعداد پوری دنیا کے مقابلے میں زیادہ ہے۔
یونیسف کی سربراہ اَین وَینے مَین کا کہنا ہے:"وہ معاشرہ کبھی بھی ترقی نہیں کر سکتا، جہاں کم عمر بچوں کو شادی پر مجبور کیا جاتا ہو، جہاں بچوں کے بنیادی حقوق سے انکار کیا جاتا ہو اور جہاں بچوں کو جسم فروشی پر مجبور کیا جاتا ہو۔"
ایک اندازے کے مطابق سن دو ہزار سات میں جنوبی ایشیا میں پیدا ہونے والے سینتالیس فیصد بچوں کا کوئی اندراج ہی نہیں ہوا۔ رجسٹر نہ ہونے والے چوبیس ملین بچوں میں سے سولہ ملین کا تعلق بھارت سے ہے۔
یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ایک سو پچاس ملین کے قریب بچوں کو چائلڈ لیبر کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ ان میں سے اُنتیس ملین کا تعلق بھارت سے ہے۔ ان سے بھاری جسمانی مشقت لی جاتی ہے۔
اس رپورٹ میں خاص طورپر مزدوری اورجسم فروشی کے لئے بچوں کے بڑے پیمانے پر استحصال کی نشاندہی بھی کی گئی ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ بھارت میں نیپالی بچوں کا استحصال کیا جاتا ہے اور یہی حالت ان پاکستانی لڑکوں اور لڑکیوں کی ہے، جنہیں افغانستان لے جایا جاتا ہے۔
رپورٹ: امتیاز احمد
ادارت: کشور مصطفٰی