انتخابی دھاندلی کے الزامات کے بعد سنگین ہوتا سیاسی بحران
17 فروری 2024راولپنڈی ڈویژن کے کمشنر کی طرف سے حالیہ انتخابات میں دھاندلی کروانے کے اعتراف کے بعد پاکستان میں جاری سیاسی بحران سنگین صورت اختیار کر گیا ہے اور الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کے بعد پنجاب حکومت نے بھی اس معاملے کی اعلی سطحی تحقیقات کروانے کا اعلان کیا ہے۔
کمشنر لیاقت علی چھٹہ نے راولپنڈی میں میڈیا کے نمائندوں کے ساتھ بات چیت میں چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ اور چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر انتخابی دھاندلی میں ملوث ہونے کے الزامات بھی عائد کیے۔
دھاندلی کےثبوت لائے جائیں، چیف جسٹس
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے لیاقت علی چٹھ کے انتخابی دھاندلی سے متعلق الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان الزامات میں ذرا سی بھی صداقت ہو تو اس کا ثبوت پیش کیا جائے۔ ہفتے کے روزسپریم کورٹ میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ ''آپ کچھ بھی الزامات لگا سکتے ہیں، کل مجھ پر کوئی چوری کا الزام لگادیں، کوئی قتل کا الزام لگا دیں۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا، ''الزام لگانا لوگوں کا حق ہے لیکن ساتھ ساتھ ثبوت بھی دے دیں۔‘‘
کمشنر راولپنڈی کے الزامات پر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے چیمبر میں ایک مشاورتی اجلاس بھی ہوا۔ اس اجلاس میں جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس اطہر من اللہ نے شرکت کی۔
صوبائی تحقیقاتی کمیٹی کا قیام
نگران وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی نے بھی اس اعلیٰ سرکاری افسر کے الزامات کے حوالے سے چھان بین کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دینے کی ہدایات جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس معاملے کی غیر جانبدارانہ تحقیقات اور آزادنہ انکوائری کرائی جائے گی تاکہ حقائق سامے لائے جا سکیں۔
یاد رہے کمشنر راولپنڈی لیاقت علی چٹھہ نے عام انتخابات میں دھاندلی کا اعتراف کرتے ہوئے ہفتے کی صبح اپنے عہدے سے استعفی دے دیا تھا۔
ن لیگ اور پی پی پی تحقیات کی حامی
پاکستان کی دو بڑی جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ نون نے تحقیقات کی حمایت کی ہے لیکن مسلم لیگ نون کی ترجمان مریم اورنگزیب کا کہنا ہے کہ تحقیقات کمشنر کے الزامات کی نہیں بلکہ ان کی اپنی ہونی چاہیے تاکہ پتہ چلے کہ وہ کن کے لیے کیا کام کر رہے ہیں۔
مریم اورنگزیب کے مطابق لیاقت چٹھہ کے موبائل رابطوں، حالیہ ملاقاتوں اور ان کے بنک اکاونٹس کی بھی جانچ ہونی چاہیے۔
پیپلز پارٹی کی رہنما شازیہ مری کا کہنا تھا کہ تحقیقات تو ہونی چاہییں لیکن توجہ اب حکومت سازی کی طرف رہنی چاہئیے تاکہ جمہوری نظام ڈی ریل نہ ہو۔ پنجاب کے وزیر اطلاعات عامر میر نے ایک نجی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے کمشنر لیاقت چٹھہ کی دماغی حالت کو غیر متوازن قرار دیتے ہوئے ان کے طبی معائنے کی ضرورت پر زور دیا۔
ن لیگ اور پی پی کے حامیوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ کمشنر کا الیکشن کے عمل سے کوئی تعلق نہیں تھا اور یہ کہ ان کا ضمیر اتنے دن بعد کیوں جاگا۔ کیا لیاقت چٹھہ اپنی ریٹائرمنٹ سے چند دن پہلے انتخابی دھاندلی کا اعتراف کرکے اپنے آئندہ مستقبل کے لیے کوئی کھیل کھیل رہے ہیں یا وہ دباؤ کا شکار ہو کر کسی اور کے لیے کام کر رہے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ کمشنر چٹھہ کے دیے ہوئے اعدادوشماردرست نہیں ہیں۔
چیف الیشکن کمشنر سے مستعفی ہونے کا مطالبہ
دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف، جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام (ف) سمیت الیکشن نتائج کی مخالفت کرنے والی جماعتوں کا کہنا ہے کہ کمشنر کے بیان سے ان کے اس موقف کی تائید ہوئی ہے کہ پاکستان کے حالیہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف نے اپنا چھینا گیا مینڈیٹ واپس مانگا ہے اور چیف الیکشن کمشنر سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا ہے۔
پی ٹی آئی کے رہنما حامد خان کا کہنا ہے کہ یہ کہنا مضحکہ خیز ہے کہ کمشنر کا انتخابات میں کردار نہیں ہوتا، ڈپٹی کمشنر، کمشنر کے ماتحت ہوتا ہے تو اس کا کردار کیوں نہیں ہے؟ اپنے بیان میں حامد خان نے کہا کہ کمشنر روکنا چاہے تو اسے اختیار ہے کہ ڈپٹی کمشنر کو روکے، حکومتی مشینری کا ایک اہم آدمی کہہ رہا ہے کہ دھاندلی ہوئی۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے ممتاز تجزیہ کار مجیب الرحمن شامی کا کہنا تھا کہ اس ساری صورتحال کا سب سے دلچسپ پہلو یہ ہے کہ کمشنر نے پاکستان کی فوج کو اس معاملے سے بالکل باہر نکال دیا ہے۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے دفاعی تجزیہ کار فاروق حمید نے بتایا کہ یہ ساری صورت حال پاکستان کے اداروں کے لیے تشویش کا باعث ہوگی جو ملک میں معاشی بحران کے خاتمے اور سیاسی استحکام کے خواہاں ہیں۔ '' میرے خیال میں پاکستان کا بحران اب کافی سنگین صورت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ اس کے خاتمے کے لئے الیکشن نتائج میں درستگی ضروری ہوگی۔‘‘
لاہور اور کراچی میں تحریک انصاف کا احتجاج
ہفتے کے روز پی ٹی آئی کے کارکنوں نے لاہور میں جیل روڈ پر اپنے دفتر کے باہر انتخابی دھاندلیوں کے خلاف احتجاج کیا اور نعرے بازی کی۔ اس موقع پر پولیس نے پی ٹی آئی کے رہنما سلمان اکرم راجہ ایڈوکیٹ سمیت پی ٹی آئی کے متعدد کارکنوں کو حراست میں لے لیا۔
پی ٹی آئی کے حامیوں کی جانب سے کراچی میں اليکشن کميشن سندھ کے دفتر کے باہر مظاہرہ کیا گیا۔ اس موقع پر پولیس کی بھاری نفری تعینات کی گئی تھی۔ الیکشن کمیشن کی جانب آنے والی سڑک پر ٹریفک معطل کر دی گئی تھی۔
اس دوران مظاہرین کا ٹولیوں کی شکل میں آمد کا سلسلہ جاری رہا۔ یہ مظاہرین انتخابی دھاندلی کے خلاف نعرے بازی بھی کر رہے تھے۔ مظاہرين سے خطاب کر تے ہوئے تحريک انصاف کے قائدين نے اپنی تقارير ميں اليکشن کميشن آف پاکستان کے سربراہ سکندر سلطان راجہ اور نگراں حکومت پر سخت تنقید کی۔
ایم کیو ایم لندن کی مظاہرے میں شرکت
مظاہرے کے دوران اس وقت دلچسپ صورتحال دیکھنے میں آئی، جب اسٹيج سے الطاف حسين کی جماعت ايم کيو ايم لندن سے تعلق رکھنے والے شرکاء کو خوش آمديد کہا گيا۔ اس دوران الطاف حسين کے حق ميں بھی نعرے بھی لگے۔
مظاہرے میں شریک ايک خاتون، جنھوں نے عمران خان اور الطاف حسين کی تصاویر والے ايک پوسٹر اٹھا رکھا تھا،نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا، ''الطاف حسين اور عمران خان کا اتحاد وقت کی ضرورت ہے۔‘‘
'اپنی ایک ایک سیٹ واپس لیں گے'
گزشتہ روز ہی جيل سے رہا ہونے والے پی ٹی آئی سندھ کے صدر حليم عادل شيخ نے ڈوئچے ويلے سے گفتگو کر تے ہوئے کہا، ''وہ وقت قریب ہے جب ہماری چوری کی گئیں سیٹیں واپس آئیں گی۔‘‘ان کا مزید کہنا تھا، ''انتخابی نتائج پر مبنی فارم 45 تو ہمارے پاس ہیں لیکن فارم 47 نجانے کہاں ہیں؟‘‘
حلیم عادل شیخ نے دعویٰ کیا کہ فارم 45 کے مطابق ملک بھر ميں پی ٹی آئی کی 100 سیٹیں ہيں۔ ان کا کہنا تھا،''الیکشن کمیشن سن لے ایک ایک سیٹ واپس ليے بغیر جان نہیں چھوڑیں گے۔‘‘
تحریک انصاف سندھ کے صدر نے گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) کے سربراہ پیر پگارا کو سراہتے ہوئے کہا کہ ان کے والد اور دادا نے انگریزوں کے خلاف جنگ لڑی اور آج کا پیر پگارا وقت کے حکمرانوں کے سامنے کھڑا ہوگیا۔
بعدازاں تحريک انصاف کے کارکنان اور رہنماؤں نے اعلان کيا کہ چوری شدہ مينڈيٹ واپس ملنے تک وہ احتجاجی تحريک جاری رکھیں گے۔