کملا ہیرس کا غزہ جنگ کے خاتمے پر زور، اسرائیلی قیادت ناراض
26 جولائی 2024اسرائیلی حکام نے امریکی نائب صدر اور آئندہ صدارتی انتخابات کے لیے ڈیموکریٹک پارٹی کی امیدوار کملا ہیرس کے غزہ کی جنگ کے خاتمے سے متعلق بیان کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ امریکہ کے دورے پر گئے ہوئے اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو سے ملاقات کے بعد ایک پریس کانفرنس میں ہیرس نے کہا کہ غزہ میں مصائب کو دیکھتے ہوئے اس جنگ کے ختم ہونے کا وقت آ گیا ہے۔
ہیرس کے یہ ریمارکس غزہ میں لڑائی کے خاتمے کے لیے حماس کے ساتھ ایک معاہدے تک پہنچنے کے لیے مختلف اطراف سے نیتن یاہو پر بڑھتے ہوئے سیاسی دباؤ کی عکاسی کرتے ہیں۔ ہیرس نے کہا، ''اس ڈیل پر ایک معاہدے کے لیے بات چیت میں امید افزا پیش رفت ہوئی ہے اور میں نے ابھی ابھی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کو بتایا ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ یہ جنگ بندی معاہدہ ہو جائے۔‘‘
نیتن یاہو نے بدھ کے روز اسرائیل کے لیے مزید امریکی فوجی امداد کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ غزہ میں امن کی بحالی اور حماس کے زیر قبضہ یرغمالیوں کی رہائی کو محفوظ بنانے کا بہترین طریقہ ہے۔ ایک اسرائیلی اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ امید کی جانا چاہیے کہ حماس کی طرف سے کملا ہیرس کے تبصرے کو امریکہ اور اسرائیل کے مابین تعلقات میں کسی خلیج سے تعبیر نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی اس سے یہ معاہدہ کسی تاخیر کا شکار ہو جائے گا۔
امریکی صدر جو بائیڈن اور نومبر میں ہونے والے صدارتی انتخابات کے لیے ریپبلکن پارٹی کے نامزد امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی اس لڑائی کو جلد ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ غزہ کی جنگ گزشتہ برس سات اکتوبر کو فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کے اسرائیل میں ایک بڑے دہشت گردانہ حملے کے فوراﹰ بعد شروع ہوئی تھی۔
نیتن یاہو کے دائیں بازو کے حکومتی اتحاد کے اقتدار میں رہنے کے لیے ضروری دو سخت گیر مذہبی قوم پرست جماعتوں کے رہنماؤں اسرائیلی وزیر خزانہ اسموتریچ اور قومی سلامتی کے وزیر اتمار بین گویر نے کملا ہیرس کے ان ریمارکس کی مذمت کی ہے۔ بین گویر نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا، ''میڈم امیدوار، جنگ کا خاتمہ نہیں ہو گا۔‘‘
امریکی نائب صدر کملا ہیرس نے اپنے تبصروں میں غزہ میں جنگ روکنے اور اسرائیلی یرغمالیوں کی واپسی کے لیے حماس کے ساتھ معاہدہ کرنے کے لیے نیتن یاہو پر دباؤ ڈالنے کے عمل میں صدر جو بائیڈن کے مقابلے میں زیادہ زور دار لہجہ اپنایا ہے۔ انہوں نے اسرائیل کے اپنے دفاع کے حق کا دفاع تو کیا لیکن امریکی نائب صدر کے ریمارکس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ نیتن یاہو حکومت کے معاملے میں اپنا صبر کھو رہی ہے۔ انہوں نے کہا، ''ہم خود کو مصائب کے سامنے بے حس رہنے کی اجازت نہیں دے سکتے اور میں خاموش نہیں رہوں گی۔‘‘
آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اورکینیڈا کا اسرائیل سے غزہ میں جنگ بندی اور آئی سی جے کو جواب دینے کا مطالبہ
آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور کینیڈا نے آج جمعہ 26 جولائی کے روز غزہ پٹی کے فلسطینی علاقے میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کرتے ہوئے اسرائیل سے کہا کہ وہ اقوام متحدہ کے زیر انتظام اعلیٰ ترین عدالت کی گزشتہ ہفتے دی گئی اس رائے کا جواب دے، جس میں فلسطینی علاقوں پر اسرائیلی قبضے اور وہاں یہودی آبادکاروں کی بستیوں کو غیر قانونی قرار دیا گیا تھا۔ ان تینوں ممالک کے رہنماؤں کے ایک بیان میں کہا گیا ہے، ''اسرائیل کو بین الاقوامی برادری کے تحفظات کو سننا چاہیے۔ شہریوں کا تحفظ بین الاقوامی انسانی قانون کے تحت سب سے اہم اور ضروی ہے۔ فلسطینی شہری حماس کو شکست دینے کی قیمت ادا نہیں کر سکے۔ اسے (اس جنگ کو) ختم ہونا چاہیے۔‘‘
ان رہنماؤں نے یہ بھی کہا کہ اسرائیل کو فلسطینیوں کے خلاف جاری تشدد کی کارروائیوں کے لیے انتہا پسند اسرائیلی آباد کاروں کو جواب دہ ٹھہرانے، مقبوضہ مغربی کنارے میں اپنے آباد کاری کے پروگرام کو تبدیل کرنے اور دو ریاستی حل کی جانب کام کرنے کی ضرورت ہے۔ آسٹریلیا میں اسرائیلی سفارت خانے نے جمعرات کے روزکہا تھا کہ وہ فلسطینی کمیونٹی کے خلاف پرتشدد کارروائیوں کی مذمت کرتا ہے۔
بین الاقوامی عدالت انصاف (آئی سی جے) نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ اسرائیل کا فلسطینی علاقوں پر قبضہ اور وہاں یہودیوں کی آباد کاری غیر قانونی ہے اور یہ دونوں جلد از جلد ختم ہونا چاہییں۔
مغربی کنارے میں حماس کے رہنما کی اسرائیلی حراست میں موت
مقبوضہ مغربی کنارے میں حماس کے ایک رہنما کی اسرائیلی حراست میں موت کی اطلاعات ہیں۔ فلسطینی حکام کے ساتھ ساتھ عسکریت پسند گروپ حماس نے بھی جمعے کے روز مصطفیٰ محمد ابو آرا کی موت کی تصدیق کر دی۔ مغربی کنارے میں فلسطینی اتھارٹی کے قیدیوں کے امور کے نگران ادارے اور فلسطینی قیدیوں کے حوالے سے کام کرنے والے غیر سرکاری ادارے پرزنر کلب کے ایک مشترکہ بیان کے مطابق تریسٹھ سالہ مصطفیٰ محمد ابو آرا جنوبی اسرائیل کی ایک جیل سے ہسپتال منتقل کیے جانے بعد انتقال کر گئے۔ حماس نے ایک بیان میں کہا ہے، ''ہم شیخ مصطفیٰ محمد ابو آرا کے انتقال پر سوگوار ہیں اور دانستہ طبی غفلت کے ذریعے ان کے قتل کا ذمہ دار اسرائیلی قبضے کو ٹھہراتے ہیں۔‘‘
فلسطینی ادارے اور واچ ڈاگ نے بتایا کہ ابو آرا کو اکتوبر میں اس وقت گرفتار کیا گیا تھا، جب وہ صحت کے شدید مسائل کا شکار تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حراست کے دوران انہیں بھوکا رکھا گیا اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اسرائیلی فوج نے فوری طور پر اس بارے میں کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
فلسطینی حکام نے رواں ماہ اسرائیل پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ اسرائیل اور حماس کے مابین جنگ کے آغاز کے بعد سے فلسطینی قیدیوں کے خلاف ایک ''مکروہ انتقامی جنگ‘‘ جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس وقت اسرائیلی فوج کا کہنا تھا کہ وہ ''نظربند افراد کے ساتھ منظم بدسلوکی سے متعلق الزامات کو یکسر مسترد کرتی ہے۔‘‘ اسرائیلی فوج کا مزید کہنا تھا کہ وہ بین الاقوامی قانون کے دائرہ کار کے اندر رہتے ہوئے کام کرتی ہے۔
ش ر⁄ م م، ع ا (روئٹرز، اے ایف پی)