1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’کنواروں پر پابندی‘، قطر میں نئی بحث شروع

عاطف بلوچ25 نومبر 2015

خلیجی ریاست قطر کے اہم شاپنگ مالز میں ’کنواروں‘ کے داخلے کی پابندی کا ایک منصوبہ زیر بحث ہے، جس کی منظوری کی صورت میں ہفتے کا ایک دن صرف فیملیوں کے لیے مختص کر دیا جائے گا۔ یوں ان مالز میں ’کنوارے‘ مزدور نہیں جا سکیں گے۔

https://p.dw.com/p/1HCG3
City Centre Doha Mall
تصویر: picture-alliance/Gavin Hellier/Robert Harding World Imagery

خبر رساں ادارے اے ایف پی نے بتایا ہے کہ ملک کے اہم شاپنگ مالز میں ہفتے کا ایک دن صرف فیملیوں کے لیے مختص کیے جانے کا مجوزہ منصوبہ یکم دسمبر کو سینٹرل مونسپل کمیٹی (سی ایم سی ) میں زیر بحث آئے گا۔ اس منصوبے کے مطابق ملک کے آٹھ بڑے شاپنگ مالز کو ہفتے کے ایک دن ’کنواروں‘ کے لیے بند کر دیا جائے گا تاکہ کنبوں کو خریداری میں مشکلات کا سامنا نہ ہو۔ تجویز دی گئی ہے کہ جمعہ یا ہفتہ ایک دن صرف فیملیوں کے لیے مختص کر دیا جائے۔

اگرچہ مسلم اکثریتی ملک میں خواتین اور بچوں کی ترجیحات کے حوالے سے یہ منصوبہ بے ضرر معلوم ہوتا ہے لیکن فٹ بال عالمی کپ 2022ء کے میزبان ملک میں غیر ملکی مزدروں کی ایک بڑی تعداد کی وجہ سے یہ منصوبہ پیچیدہ بھی ہو سکتا ہے۔ کچھ مبصرین کے مطابق اس منصوبے کے ذریعے صرف غیر ملکی مزدروں کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔

یہ امر اہم ہے کہ ایسے مزدور زیادہ تر اپنے گھر والوں کو اپنے آبائی وطنوں میں چھوڑ کر ہی وہاں کام کرنے کے غرض سے پناہ گزین ہیں۔ اس منصوبے کی منظوری کے نتیجے میں ہفتے کے کسی ایک دن کوئی مرد بھی بغیر فیملی کے ان مجوزہ شاپنگ مالز میں داخل نہیں ہو سکے گا، چاہے وہ قطر کا مقامی شہری ہی کیوں نہ ہو۔

اس منصوبے کے حامی ناصر بن ابراہیم المہندی کا کہنا ہے کہ شاپنگ مالز میں غیر ملکی مزدروں کی موجودگی مقامی باشندوں بالخصوص خواتین کے لیے مشکلات کا باعث بن جاتی ہے۔ سی ایم سی کے رکن ناصر کہتے ہیں کہ قطر کا معاشرہ بنیادی طور پر فیملی کے رحجانات کا حامل ہے اور اس لیے شاپنگ مالز میں ایک دن صرف کنبوں کے لیے وقف کر دینا کوئی عجیب بات نہیں ہے۔ ان کا مزید کہنا ہے، ’’شاپنگ مالز میں صرف خریداری ہی نہیں کی جاتی بلکہ وہاں بچوں اور خواتین کے لیے نہ صرف لطف اندوز ہونے کے مواقع ہوتے ہیں بلکہ فیملیاں ملتی جلتی بھی ہیں۔‘‘

قطر میں براہ راست منتخب کی جانے والی مونسپل کونسل (سی ایم سی) کے رکن ناصر کو اس انتیس رکنی کونسل کی خاتون ممبر شیخہ یوسف علی الجفیری کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ اس منصوبے کو حتمی شکل دینا ناگزیر ہے، ’’کبنے شکایت کرتے ہیں کہ وہ اختتام ہفتہ پر مزدروں کی بڑی تعداد کی وجہ سے بڑے بڑے شاپنگ مالز میں داخل نہیں ہو سکتے۔

Katar Gastarbeiter in Doha
قطر میں موجود مزدور زیادہ تر اپنے گھر والوں کو اپنے آبائی وطنوں میں چھوڑ کر ہی وہاں کام کرنے کے غرض سے پناہ گزین ہیںتصویر: DW/Reese Erlich 2015

اس صورتحال میں گھرانے مشکلات کا شکار ہیں اور ہمیں ایک دن ان کے لیے مختص کر دینا چاہیے۔‘‘ شیخہ یوسف علی الجفیری کے بقول دیگر کئی ایسے شاپنگ سینٹرز ہیں، جہاں اس مخصوص دن کے دوران غیر ملکی مزدرو خریداری کی خاطر جا سکتے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ یہ منصوبہ صرف غیر ملکی مزدروں کے لیے ہی نہیں ہے بلکہ تمام قومیتوں کے افراد کے لیے ہے۔

دوسری طرف انسانی حقوق کے اداروں نے اس مجوزہ منصوبے پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ ہیومن رائٹس واچ میں گلف ریسرچر نکولا مک گیہان کے مطابق یہ دراصل ایک غیر محسوس انداز میں ایک امتیازی سلوک ہو گا، ’’یقینی طور پر اس کے نقصان دہ اثرات مرتب ہوں گے۔‘‘ وہ کہتے ہیں کہ یہ منصوبہ معاشرتی سطح پر تقسیم کا باعث بنے گا۔

دوحہ میں مقیم گھانا سے تعلق رکھنے والے جارج نے اے ایف پی کو کہا کہ یہ منصوبہ ایک بڑا مسئلہ بن جائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس ملک میں غیر ملکیوں کے ساتھ دوسرے درجے کے شہریوں کی طرح سلوک نہیں کیا جانا چاہیے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں