کوئٹہ بم دھماکہ: ہلاکتوں میں اضافہ
16 اپریل 2010اس سے پہلے ایک نجی بینک کے اہلکار کو نامعلوم افراد نے اندھا دھند فائرنگ کرکے ہلاک کر دیا تھا، جن کی میت کے پاس ہسپتال میں عزیزو اقارب، صحافی اور پولیس اہلکار جمع تھے کہ اچانک دھماکہ ہوگیا۔
پاکستان کے جنوب مغربی شہرکوئٹہ کے سول ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ کے قریب ہونے والے اس خود کش بم دھماکے میں ایک پولیس افسر اور ایک صحافی سمیت کم از کم دس افراد جاں بحق جبکہ پچاس کے قریب زخمی ہو گئے ہیں۔ حکام کے مطابق زخمیوں میں قومی اسمبلی کے ایک رکن بھی شامل ہیں۔
صوبائی دارلحکومت کوئٹہ میں جمعہ کی صبح ایک نجی بینک کے افسر ارشد زیدی پر نامعلوم افراد نے منان چوک میں فائرنگ کی، جس کے نتیجے میں وہ شدید زخمی ہوئے۔ انہیں فوری طور پر سول ہسپتال پہنچایا گیا، جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاکر چل بسے۔ ارشد زیدی کی ہلاکت کو ’’ٹارکٹ کلنگ‘‘ کہا جا رہا ہے۔
ارشد زیدی بلوچستان شیعہ کانفرنس کے صدرآغا اشرف زیدی کے صاحبزادے ہیں اور پولیس کا کہنا ہے کہ یہ قتل فرقہ واریت کا شاخسانہ ہو سکتا ہے۔ ڈی ایس پی ہیڈ کوارٹرز ظاہر شاہ کاظمی ہسپتال میں شعبہ حادثات کے باہر صحافیوں کو اس واقعے کی تفصیلات بتا رہے تھے کہ اسی دوران ایک زوردار دھماکہ ہوا، جس کے نتیجے میں ڈی ایس پی ہیڈکوارٹرزظاہر کاظمی اورپاکستان میں ایک نجی ٹیلی وژن چینل کے کیمرہ مین عارف ملک سمیت دس افراد موقع پر ہی جاں بحق ہوئے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ دھماکے میں 15 کلودھماکہ خیز مواد استعمال ہوا ہے، جس سے متعدد افراد کی ہلاکتوں کے علاوہ شعبہ حادثات کی عمارت کو بھی بری طرح نقصان پہنچا ہے۔
بم دھماکے میں شدید زخمی افراد میں پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے قومی اسمبلی کے رکن آغا ناصرکے علاوہ کئی صحافی اور پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔
اس واقعے کے بعد علاقے میں شدید فائرنگ کی آوازیں بھی سنی گئیں۔ ڈی آئی جی انویسٹی گیشن کوئٹہ قاضی عبدالواحد کے مطابق جائے وقوعہ سے ایک مشتبہ سراور بازو ملے ہیں۔ پولیس کو شبہ ہے کہ یہ ایک خود کش حملہ ہو سکتا ہے۔ پولیس حکام کے مطابق کوئٹہ شہر میں سیکیورٹی کے لئے کم از کم 91 مقامات پر کیمرے نصب ہیں۔
اس واقعے کے بعد پولیس اور فرنٹئیر کور کی ایک بڑی تعداد ہسپتال پہنچ گئی۔ بعض مشتعل مظاہرین نے ہسپتال میں توڑ پھوڑ کے علاوہ جناح روڈ کو ٹریفک کے لئے بند کر دیا جبکہ خوف کی وجہ سے شہر کی اکثر دکانیں اور تعلیمی ادارے بھی بند کر دئے گئے۔ حکام کے مطابق شہر میں کشیدگی برقرار ہے۔
گزشتہ تقریباً ایک برس کے دوران صوبہ بلوچستان میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ٹارگٹ کلنگ کے تین سو سے زیادہ واقعات پیش آئے ہیں، جن میں سینکڑوں افراد مارے جا چکے ہیں۔
رقبے کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان میں کافی عرصے سے صوبائی خود مختاری اور اپنے وسائل پر اختیار حاصل کرنے کے لئے بھی مقامی لوگوں کی جانب سے ایک تحریک چل رہی ہے۔
رپورٹ: بخت زمان یوسفزئے
ادارت: گوہر نذیر گیلانی