’کوئی بھی ہو، مودی نہ ہو‘، بھارتی مسلمان
31 مارچ 2014فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی نے اپنے ایک جائزے میں لکھا ہے کہ بھارتی مسلمان مودی کا نام سن کر یا تو نفرت سے منہ پھیر لیتے ہیں یا پھر اس ہندو قوم پرست رہنما کی مقبولیت کو سرے سے تسلیم کرنے سے ہی انکار کر دیتے ہیں۔
بھارتی شہر ایودھیا سے اپنے جائزے میں اے ایف پی نے لکھا ہے کہ اس شہر میں 1992ء میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان پھوٹ پڑنے والے فسادات کے نتیجے میں دو ہزار سے زیادہ افراد مارے گئے تھے۔ ایودھیا کی جامع مسجد کےسامنے ایک چھتیس سالہ نوجوان محمد صغیر نے اپنی نوعمری کے زمانے میں بیتے واقعات کو یاد کرتے ہوئے اے ایف پی کو بتایا، ’مسلمانوں کو پیٹا گیا، کاٹ ڈالا گیا اور زندہ جلا دیا گیا، ان مناظر سے زیادہ بھیانک کیا چیز ہو گی؟‘
1992ء میں ایودھیا ہی میں کٹر ہندوؤں نے تاریخی بابری مسجد منہدم کر دی تھی کیونکہ اُن کے خیال میں یہ مسجد اُن کے دیوتا رام کی جائے پیدائش پر تعمیر کی گئی تھی۔ مودی کی جماعت بی جے پی یعنی بھارتیہ جنتا پارٹی کو اسی تنازعے کے بعد ملک بھر میں زبردست مقبولیت حاصل ہو گئی تھی۔
وقت کے ساتھ ساتھ ایودھیا کی بابری مسجد کی جگہ کی ملکیت کا تنازعہ عدالتوں میں دائر کی جانے والی مختلف درخواستوں کی وجہ سے بڑی حد تک پس منظر میں جا چکا ہے تاہم محمد صغیر جیسے مسلمانوں کو ڈر ہے کہ ’اگر بی جے پی بھاری اکثریت کے ساتھ برسرِاقتدار آ گئی تو ماحول پھر سے کشیدہ ہو جائے گا‘۔
بی جے پی کے منشور میں ابھی بھی یہ شق شامل ہے کہ بابری مسجد کی جگہ پر ایک ’رام جنم بھومی مندر‘ تعمیر کیا جائے گا۔ اگرچہ نریندر مودی کا نام عام طور پر 2002ء میں ریاست گجرات میں ہونے والے ہندو مسلم فسادات کے حوالے سے ہی زیادہ سننے میں آتا ہے لیکن بابری مسجد کے تنازعے میں بھی مودی کا ایک کردار ہے، جسے اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔
اے ایف پی کے جائزے کے مطابق جب بی جے پی کے رہنما ایل کے ایڈوانی نے 1990ء میں ’رام جنم بھومی مندر‘ کی تعمیر کے سلسلے میں ایک ملک گیر مہم شروع کی تھی تو گجرات میں اس مہم کو کسی اور نے نہیں مودی نے منظم کیا تھا۔
دہلی کی جامعہ ملیہ یونیورسٹی میں اقلیتوں سے متعلق علوم کے مرکز سے وابستہ مجیب الرحمان بتاتے ہیں کہ ’مسلم کمیونٹی مودی کے حوالے سے پریشان ہے، مسلمان اس لیے اتنے خوفزدہ ہیں کہ انہیں اس بات کا یقین ہے کہ مودی ایک ایسا شخص ہے، جس کی نظروں میں مسلمانوں، اُن کی زندگیوں اور اُن کے مستقبل کے لیے کوئی احترام نہیں ہے‘۔
ہر روز یوگا کرنے والے تریسٹھ سالہ مودی نے اپنی نوعمری کے زمانے میں بی جے پی میں شمولیت اختیار کی تھی۔ گزشتہ سال جولائی میں مودی کے ایک قریبی ساتھی امیت شاہ نے ایودھیا کا دورہ کیا تھا اور ایک بار پھر رام مندر بنانے کی بات کی تھی۔ تب کچھ لوگوں نے یہ خدشات ظاہر کیے تھے کہ تنازعے کی دبی ہوئی راکھ کو پھر سے ہوا مل سکتی ہے۔
حاجی محبوب احمد مسلمانوں کے اُس گروپ کے سربراہ ہیں، جو ایودھیا میں بابری مسجد کی جگہ پر عبادت کرنے کے حق کا دفاع کر رہا ہے۔ اُنہوں نے اے ایف پی سے باتیں کرتے ہوئے کہا، ’مودی نہیں۔ اپنی زندگی میں مودی جیسے کسی شخص کو میں (اِس عہدے پر) نہیں دیکھنا چاہوں گا، کوئی بھی آ جائے لیکن مودی نہیں‘۔
مودی اپنی انتخابی مہم کے دوران خود کو ایک ایسے اعتدال پسند قوم پرست کے طور پر پیش کر رہے ہیں، جس کی توجہ اقتصادی ترقی اور احسن طریقے سے کاروبارِ مملکت چلانے پر مرکوز ہو گی، ’میرے لیے میرا مذہب یہ ہے کہ سب سے پہلے قوم، سب سے پہلے انڈیا‘۔ اے ایف پی کے مطابق جب مودی یہ کہتے ہیں کہ کانگریس پارٹی بھارت کے ’پچھتر فیصد شہریوں‘ کو نظر انداز کر رہی ہے، تو اُس سے مراد ہوتی ہے ’پچھتر فیصد ہندوؤں کو‘۔ مسلمان بھارتی آبادی کا تیرہ فیصد بنتے ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق بی جے پی کا پارلیمانی اکثریت حاصل کرنا خارج از امکان نظر آتا ہے اور حکومت بنانے کے لیے اس جماعت کو دیگر اتحادی جماعتوں کی ضرورت پڑے گی۔ اے ایف پی سے باتیں کرتے ہوئے وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) یا ورلڈ ہندو کونسل کے ایک رہنما شرد شرما نے کہا:’’اگر ایک ہندو جماعت اکثریت حاصل کر لیتی ہے تو ہم پارلیمان سے رام کی جنم بھومی کو آزاد کروانے اور اُسے ہندو کمیونٹی کے حوالے کیے جانے کا قانون منظور کرنے کے لیے کہیں گے۔‘‘