’کوئی سہولت نہیں تو ٹیکس کس بات کا؟‘
1 اگست 2015صوبہ پنجاب، خیبر پختونخوا اور سندھ سمیت ملک کے بیشتر شہری علاقوں میں تاجروں نے کاروبار بند رکھا۔ کئی شہروں میں جزوی ہڑتال بھی ہوئی اور دوپہر کے بعد دوکانیں کُھلنا شروع ہو گئیں۔ ادھر پنجاب میں لاہور، ملتان، سرگودھا، گوجرانوالہ، چکوال، میانوالی، وہاڑی اور میاں چنوں سمیت بہت سے شہروں مییں تاجروں کی بڑی تعداد نے اپنا کاروبار بند رکھا۔ فیصل آباد میں دوکانیں بند کرانے کی کوششوں پر تاجروں میں تصادم بھی ہوا۔
اس ہڑتال کی اپیل پاکستان قومی تاجر اتحاد سمیت مختلف تاجر تنظیموں نے کی تھی۔ تاجر برادری کے ایک دوسرے دھڑے نے اسی ٹیکس کے خلاف پانچ اگست کو ہڑتال کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔ صنعت کاروں اور گڈز ٹرانسپورٹروں کی تنظیموں کے علاوہ کئی سیاسی جماعتوں کی طرف سے اس ٹیکس کی مخالفت کی جا رہی ہے۔
حکومت کا موقف ہے کی اس ٹیکس سے نئے لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے میں مدد ملے گی جبکہ تاجروں کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ حکومت اس ٹیکس کے ذریعے تاجروں کی مشکلات میں اضافہ کرنا چاہتی ہے اور جب تک یہ ٹیکس ختم نہیں ہو گا وہ اپنا احتجاج جاری رکھیں گے۔
اقتصادی تجزیہ نگار منصور احمد نے ڈی ڈبلیو کا بتایا کہ یہ ہڑتال کافی حد تک کامیاب رہی ہے۔ ایک مزدور نیامت علی نے بتایا کہ پاکستان میں ہڑتالیں کرنے والوں اور حکومت کو یہ بھی تو سوچنا چاہیے کہ اس سے دیہاڑی دار مزدوروں کو کتنا تقصان ہوتا ہے۔
تجزیہ نگاروں کے بقول اس ہڑتال کی کامیابی نے پاکستان کی کاروباری برادری میں بہت اثر رسوخ رکھنے والے وزیر اعظم نواز شریف کی تاجر برادری میں مقبولیت پر سوالیہ نشان لگا دیے ہیں۔ ممتاز تجزیہ نگار ڈاکٹر عاصم اللہ بخش کے بقول بینکوں سے لین دین پر ٹیکس عائد کرنے سے تاجروں کی جیبوں پر زد پڑی ہے، اس لیے رد عمل زیادہ شدید ہے۔ ان کے بقول، ’’ایک کروڑ روپے روزانہ کمانے والے بزنس مین کو ساٹھ ہزار روپے حکومت کو دینا منظور نہیں ہے۔‘‘
ان کے بقول ٹیکس دینے والے لوگوں کا حکومت پر اعتماد نہیں ہے، کرپٹ ٹیکس مشینری لوگوں کو بلیک میل کرتی ہے، بجلی چوری کی قیمت بجلی کا بل ادا کرنے والے دیتے ہیں، جو ٹیکس دیتا ہے حکومت اس پر ہی مزید بوجھ ڈالتی چلی جاتی ہے، ’’لوگوں میں یہ سوچ پروان چڑھ رہی ہے کہ اگر ہم نے بچے نجی سکول میں پڑھانے ہیں، اگر ہمارا علاج نجی ہسپتال میں ہی ممکن ہے اور اگر ہم نے اپنے گھر کی حفاظت اپنا چوکیدار رکھ کر ہی کرنی ہے تو پھر ٹیکس کس بات کا ادا کریں۔‘‘
ڈاکٹر عاصم کے مطابق اگر حکمران طبقہ خود ٹیکس دے کر معاشرے کے لیے مثال نہیں بنے گا، اگر ملک میں ٹیکس کا منصفانہ نظام نہیں نافذ ہو گا اور اگر جی ڈی پی میں بڑا حصہ ڈالنے والے زرعی سیکٹر اور پراپرٹی کے شعبے پر ٹیکس نہیں لگایا جاتا تو پھر عوام ٹیکس دینے سے گھبراتے ہی رہیں گے۔