کوئی کشمیری پنڈت خوف کے سبب وادی چھوڑ کر نہیں گیا،مودی حکومت
2 دسمبر 2021اپوزیشن کانگریس پارٹی کے ایک رکن پارلیمان نے مودی حکومت سے سوال پوچھا تھا کہ آیا متعدد ہندو اور سکھ اپنی جان کو لاحق خدشات اور دیگر اسباب کے پیش نظر وادی کشمیر چھوڑنے کے لیے مجبور ہوئے ہیں۔ اس کے جواب میں بھارت کے نائب وزیر داخلہ نتیہ نند رائے نے بدھ کے روز پارلیمان کو تحریری طورپر بتایا کہ گزشتہ اکتوبر میں وادی کشمیر سے 115 کنبے جموں منتقل ہوئے۔ ان میں اکثریت خواتین اور بچوں کی تھی۔ لیکن یہ نقل مکانی "سرکاری نقل وحرکت کا حصہ" اور تعلیمی اداروں میں موسم سرما کی چھٹیوں کی وجہ سے ہوئی۔
بھارتی نائب وزیر داخلہ نے واضح کیا کہ سری نگر میں اقلیتوں کی حالیہ ہلاکتوں کے واقعات کا ان کشمیری پنڈتوں کی نقل مکانی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کوئی بھی کشمیری پنڈت خوف کے سبب وادی چھوڑ کر نہیں گیا اور نہ ہی اقلیتوں کی بڑے پیمانے پر کوئی مہاجرت ہوئی ہے۔
خیال رہے کہ بھارتی میڈیا اور بالخصوص سوشل میڈیا میں ایسی افواہیں مسلسل پھیلائی جاتی رہی ہیں کہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں گزشتہ دنوں بعض شہریوں کی ٹارگیٹ کلنگ کی وجہ سے کشمیری پنڈتوں، ہندووں اور سکھوں کی مہاجرت کا سلسلہ ایک بار پھر شروع ہوگیا ہے۔
رواں برس اکتوبر اور نومبر میں سری نگر میں ٹارگیٹیڈ کلنگ کے 16 واقعات پیش آئے تھے۔ ان حملوں میں ایک اسکول پرنسپل، ٹیچر، کیمسٹ اور سیلز مین اور اترپردیش اور بہار سے تعلق رکھنے والے خوانچہ فروش مارے گئے تھے۔ ان حملوں کی وجہ سے اقلیتی فرقے میں خوف کی لہر پیدا ہوگئی تھی۔ مقامی کشمیریوں نے ان حملوں کی سخت مذمت کی تھی اور اقلیتی فرقے سے تعلق رکھنے والوں کو ہر ممکن حفاظت کی یقین دہانی کرائی تھی۔
مہاجرت نہیں بلکہ واپسی ہوئی ہے
بھارتی نائب وزیر داخلہ نے تحریری جواب میں اس بات سے انکار کیا کہ جان کے خطرے کے مدنظر اقلیتی فرقے کا کوئی شخص جموں منتقل ہوا ہے۔
نائب وزیر داخلہ رائے نے کہا، "اس کے برعکس حقیقت یہ ہے وزیر اعظم مودی کے "نیا کشمیر" ویژن کے نتائج دکھائی دینے لگے ہیں اور وزیر اعظم ڈیولپمنٹ پیکج کے تحت کشمیر میں ملازمت کے حصول کے خاطر 500 مہاجرین وادی میں اپنے وطن واپس لوٹ چکے ہیں۔ مودی حکومت نے جموں و کشمیر کے لیے سن 2015 میں اس پیکج کا اعلان کیا تھا۔
بھارت کے وفاقی وزیر نے مزید بتایا کہ وادی میں نو جائیدادوں کو بحال کرکے ان کے حقیقی مالکان کے حوالے کیے جا چکی ہیں۔
حالات بہتر ہونے کے دعوے
بھارتی وزارت داخلہ نے دعویٰ کیا کہ کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے کے بعد سے پچھلے دو برسوں کے دوران زمینی سطح پر حالات کافی بہتر ہو ئے ہیں۔ اس نے اپنے دعوے کے حق میں بعض اعداد و شمار بھی پیش کیے۔
بھارتی وزارت داخلہ کی طرف سے پیش کردہ اعداد و شمار کے مطابق دفعہ 370 ختم کرنے کے بعد 841 دنوں کے اندر جموں و کشمیر میں دہشت گردی کے صرف 496 واقعات پیش آئے جبکہ اس سے گزشتہ برس اسی مدت کے دوران دہشت گردی کے 843 واقعات درج کیے گئے تھے۔
نائب وزیر داخلہ نتیہ نند رائے کا کہنا تھا، "یہ اعداد و شمار اس بات کا ثبوت ہیں کہ جموں و کشمیر میں سویلین اور آرمی پر ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کی تعداد میں کافی گراوٹ آئی ہے۔"
بھارتی وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ سن 2018 کے بعد سے جموں و کشمیر میں دراندازی کے واقعات اور دہشت گردانہ حملوں میں قابل ذکر کمی آئی ہے۔
نائب وزیر داخلہ رائے نے بتایا کہ سن 2018 میں دراندازی کے 143 واقعات ہوئے تھے جو سن 2019 میں کم ہوکر 141 اور سن 2020 میں صرف 51 رہ گئے۔ رواں برس 30 اکتوبر تک دراندازی کے صرف 28 واقعات پیش آئے ہیں۔ اسی طرح سن 2018 میں دہشت گردی کے 417 واقعات پیش آئے تھے جو سن 2019 میں کم ہوکر 255 اور سن 2020 میں صرف 244 رہ گئے۔ رواں برس 21 نومبر تک دہشت گردی کے 200 واقعات درج کیے گئے ہیں۔