کورونا تنازعہ: بھارت کی سنگاپور سے 'معذرت‘
19 مئی 2021بھارتی وزیرخارجہ ایس جے شنکر نے اس تنازعہ پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دہلی کے وزیر اعلی کا بیان بھارت کا بیان نہیں ہے۔ انہیں کووڈ ویریئنٹ اور سول ایوی ایشن پالیسی پر بولنے کا حق نہیں ہے اور ایسے غیر ذمہ دارانہ بیانات سے باہمی دوستانہ تعلقات کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
بھارتی وزارت خارجہ نے بدھ کے روز اپنے سفیر کو سنگاپور حکومت کی جانب سے طلب کیے جانے کے حوالے سے بھی ایک بیان جاری کیا۔ حالانکہ سفارت کاری میں ایسا شاذ و نادر ہی ہوتا ہے کہ اپنے سفیر کو کسی دوسرے ملک کی طرف سے کسی معاملے پر ناراضی ظاہر کرنے کے لیے طلب کیے جانے کی کوئی ملک باضابطہ تصدیق کرے۔
کیا ہے معاملہ؟
دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال نے منگل کے روز سوشل میڈیا پلیٹ فارم فیس بک اور ٹوئٹر پر ایک بیان جاری کرکے کہا تھا کہ سنگاپور میں کورونا کا نیا ویریئنٹ آیا ہوا ہے جو بچوں کے لیے کافی خطرناک ہے اس لیے وہاں سے فضائی سروسز بند کردینا چاہیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ یہ قسم تیسری لہر کی شکل میں پھیل سکتی ہے۔ انہوں بچوں کے لیے ویکسین کے متبادل کو ترجیحی بنیاد پر شروع کرنے کا بھی مشورہ دیا تھا۔
عام آدمی پارٹی کے رہنما کیجریوال کے ٹوئٹ پر سب سے پہلے بھارت میں سنگاپور کے ڈپلومیٹک مشن نے اعتراض کیا۔ سنگاپور ڈپلومیٹک مشن نے اپنے آفیشیل ٹوئٹر پر دہلی کے وزیر اعلی کے ٹوئٹ کو ری ٹوئٹ کرتے ہوئے لکھا، ”آپ کی اس بات میں کوئی صداقت نہیں کہ سنگاپور میں کووڈ کا کوئی نیا اسٹرین آیا ہے۔ جانچ سے پتہ چلا ہے کہ B.1.617.2 ویریئنٹ ہی کووڈ کے زیادہ تر کیسز میں موجود ہے اور حالیہ ہفتوں میں بچوں میں بھی یہی ویریئنٹ پایا گیا ہے۔"
سنگا پور کا اعتراض
سنگاپور کی وزارت خارجہ نے دہلی کے وزیر اعلی کے بیان پر سخت اعتراض کرتے ہوئے کہا، ”ہمیں بھارت کی ایک اہم سیاسی شخصیت کے بیان سے سخت مایوسی ہوئی ہے جنہوں نے حقائق کا پتہ لگائے بغیر ایسے دعوے کردیے۔ سنگا پور کی وزارت صحت پہلی ہی واضح کر چکی ہے کہ 'سنگاپور ویریئنٹ‘ نام سے کورونا کا کوئی نیا ویریئنٹ نہیں ہے بلکہ حالیہ ہفتوں میں کورونا کے جو کیسز سامنے آئے ہیں ان کا پہلی بار بھارت میں ہی پتہ چلا تھا۔"
سنگا پور کی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ اس نے بھارتی ہائی کمشنر پی کمارن کو بدھ کی صبح دفتر خارجہ میں طلب کر کے بھارتی رہنما کے بیان پر 'سخت ناراضی‘ ظاہر کی ہے۔
بھارت کی وضاحت
بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے ایک ٹوئٹ کرکے کہا، ''میں یہ واضح کرتا ہوں کہ دہلی کے وزیر اعلی کا بیان بھارت کا بیان نہیں ہے۔" انہوں نے مزید کہا، ”غیر ذمہ دارانہ بیان دینے والوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ ان کے اس طرح کے تبصروں سے دیرینہ شراکت والی دوستی کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔"
بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان اریندم باگچی نے جے شنکر کے ٹوئٹ کو ری ٹوئٹ کرتے ہوئے مزید کہا، ”سنگاپور اور بھارت کووڈ انیس کی جنگ میں مضبوط شراکت دار ہیں۔ ہم سنگاپور کے لاجسٹک ہب اور آکسیجن فراہم کرنے والے ملک کے طور پر اس کے کردار کی تعریف کرتے ہیں۔ سنگاپور نے ہماری مدد کے لیے فوجی طیارے بھیجے اور اس سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارا تعلق کتنا خاص ہے۔"
افسوس ناک معاملہ
سنگا پور کے وزیر خارجہ ویوین بالاکرشنن نے اپنے بھارتی ہم منصب کی وضاحت کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا، ”اب ہم اپنے اپنے ملکوں میں کورونا کے بحران کو سنبھالیں اور ایک دوسرے کی مدد کریں۔ جب تک ہر ایک محفوظ نہیں ہوگا تب تک کوئی بھی محفوظ نہیں رہے گا۔"
انہوں نے مزید کہا کہ سیاسی رہنماوں کو حقائق کے ساتھ بات کرنی چاہیے۔ سنگا پور ویریئنٹ نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ انہو ں نے اس سلسلے میں سائنسی جریدے 'نیچر‘ میں شائع ایک تحقیقاتی مضمون کا لنک بھی شیئر کیا ہے۔
اس پورے تنازعے پر بھارتی صحافی اور سفارتی امور کی ماہر سہاسنی حیدر نے ایک ٹوئٹ کرکے کہا، ”دہلی کے وزیر اعلی نے تو بغیر سوچے سمجھے تبصرہ کردیا تھا لیکن یہ بھی حیران کن بات ہے کہ بھارتی وزارت خارجہ ایک منتخب بھارتی نمائند ے کی سرعام سرزنش کر رہی ہے۔"
سیاست بھی شروع
بھارتی وزیر خارجہ کے بیان پر دہلی کے نائب وزیر اعلی منیش سسودیا نے حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی کے 'گھٹیا سیاست‘ کرنے کا الزام لگایا۔
منیش سسودیا نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ بی جے پی کو بھارت کے بچوں کی نہیں بلکہ سنگاپور کی فکر ہے۔ انہوں نے کہا، ”حکومت کا جو ردعمل سامنے آیا ہے اس سے واضح ہو گیا ہے کہ وزیر اعلی کیجریوال کو بچوں کی فکر ہے لیکن بی جے پی کو سنگاپور کی۔ بچوں کے لیے ویکسین نہیں لائیں گے لیکن سنگاپور کی فکر کریں گے۔"
سسودیا کا مزید کہنا تھا کہ وزیر اعظم مودی نے بیرونی ملکوں میں اپنا امیج بنانے کے لیے ویکسین فروخت کردی، ”مرکزی حکومت اور بی جے پی کو دنیا میں اپنی امیج مبارک ہو۔ ہم تو اپنے بچوں کی فکر کریں گے۔"