کورونا: جرمنی میں دس میں ماہ میں سب سے زیادہ اموات
1 دسمبر 2021جرمنی میں متعدی امراض پر نگاہ رکھنے والے قومی ادارے رابرٹ کوخ انسٹٰٹیوٹ نے بتایا ہے منگل تیس نومبر اور بدھ پہلی دسمبر کے درمیان ملک میں چار سو چھیالیس افراد کووڈ انیس بیماری کی شدت سے جانبر نہیں ہو سکے۔
کووڈ اقدامات آئینی ہیں، جرمن وفاقی آئینی عدالت
ادارے نے واضح کیا کہ سن 2021 میں بیس فروری کو ہونے والی اموات کی تعداد چار سو نوے تھی اور اس کے بعد کسی بھی دن جرمنی میں ہونے والی اموات اس ریکارڈ حد کے قریب بھی نہیں پہنچی تھیں۔
جرمنی میں کورونا کی چوتھی لہر
جرمن ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کے مطابق منگل اور بدھ کے درمیانی گھنٹوں میں نئی انفیکشنز کی تعداد سڑسٹھ ہزار ایک سو چھیاسی رہی۔ اس وقت جرمنی میں کورونا کی چوتھی لہر نے سارے ملک کو لرزا کے رکھ دیا ہے۔
ایک لاکھ افراد میں بیمار افراد کی اوسط شرح سب سے زیادہ جرمن ریاستوں سیکسنی اور سیکسنی انہالٹ میں پائی جاتی ہے۔ سیکسنی میں ایک لاکھ افراد میں بیمار افراد کی اوسط 1241.6 ہے جب کہ ایک دوسری ریاست سیکسنی انہالٹ میں یہی اوسط 1042.9 ہے۔
جرمن ڈاکٹر نے درجنوں کو اپنی بنائی ہوئی ویکسین لگا ڈالی
بعض جرمن ریستوں میں مجموعی صورت حال قابو میں نہیں بلکہ الارمنگ ضرور ہے۔ باویریا، برانڈن برگ، سیکسنی انہالکٹ اور سیکسنی میں چوتھی لہر کی شدت تشویش ناک ہو چکی ہے۔ بقیہ تمام جرمن ریاستوں میں ایک لاکھ افراد میں بیمار افراد کی شرح میں معمولی سی کمی واقع ہوئی ہے۔
سارے ملک میں ایک لاکھ افراد میں بیمار افراد کی مجموعی اوسط 442.9 ہے۔ پیر انتیس نومبر کو رابرٹ کوخ انسٹیٹیوٹ کے مطابق یہ اوسط اب تک کی نئی ریکارڈ سطح 452.4 پر تھی جبکہ منگل تیس نومبر کو یہ تھوڑی سی کم ہو کر 452.2 تھی۔
حفاظتی اقدامات کو عدالتی چھتری
جرمنی میں کووڈ انیس کی چوتھی لہر کو محدود رکھنے کی خاطر حکومت کی طرف سے سخت اقدامات لینے کا فیصلہ کیا گیا ہے تاہم کچھ حلقوں کی طرف سے انہیں تنقید کا نشانہ بھی بنایا جا رہا ہے۔ تاہم اب جرمنی کی اعلیٰ ترین عدالت نے ان حکومتی اقدامات کو آئینی قرار دے دیا ہے۔ وفاقی آئینی جرمن عدالت کی طرف سے کہہ دیا گیا ہے کہ بنیادی طور پر یہ قواعد و ضوابط آئین کے مطابق ہیں۔
عدالت کے مطابق اگر جرمنی میں کووڈ انیس کے کیسوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے تو پھر اسکول بھی بند کیے جا سکتے ہیں اور کرفیو بھی لگایا جا سکتا ہے۔ تاہم یہ فیصلہ ہر جرمن ریاست کووڈ انیس کی انفیکشنز کی بڑھتی ہوئی تعداد کو مد نظر رکھتے ہوئے لے گی۔
ع ح ب ج (ڈی پی اے، اے ایف پی)