کورونا وائرس: انفیکشن کی دوسری لہر کب؟
21 مئی 2020پہلے تو ایسا لگ رہا تھا جیسے کہ زندگی بہت طویل عرصے سے بند دروازوں کے پیچھے گزر رہی ہے اور ہوسکتا ہے کہ گرمیوں کی تعطیلات کے اختتام تک زندگی ایسی ہی چلے۔ لیکن پھر اچانک موسم بدل گیا - اور دروازے توقع سے پہلے کھل گئے۔ جرمنی، اسپین، یونان اور دوسری جگہوں پر پابندیاں رفتہ رفتہ نرم کر دی گئیں۔
یہاں تک کہ برطانیہ، جو یورپ میں COVID-19 انفیکشن کے سبب ہلاکتوں اور کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد کے حوالے سے سب سے اوپر ہے، ''معیشت کو دوبارہ کھولنے‘‘ پر غور کر رہا ہے، کیونکہ پچھلے دنوں متعدد چوٹی کے سیاستدانوں نے اس کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
سپریم کورٹ کا فیصلہ تنقید کی زد میں
کورونا: بھارت بھی ڈبلیو ایچ او کے رول کی جانچ کے مطالبہ میں شامل
تاہم یہ تشویش پائی جارہی ہے کہ اگر ممالک لاک ڈاؤن بہت جلد ختم کردیں تو عالمی سطح پر انفیکشن کی دوسری لہر اس سیارے پر پھیل سکتی ہے۔
دوسری لہر ناگزیر ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کے ہیلتھ ایمرجنسی پروگرام کے ڈائریکٹر مائیک ریان نے ایک پریس کانفرنس میں کہا ، ''یہ وائرس ہمارے معاشروں میں ایک اور مقامی وائرس کی شکل میں پھیل سکتا ہے۔ یہ جاتا دکھائی نہیں دیتا۔‘‘
زیادہ صبر، زیادہ لاک ڈاؤن؟
ریان کے مطابق دوسرے وائرس، جیسے ایچ آئی وائرس، آیا مگر پھر غائب نہیں ہوا۔ اس کے خلاف محققین نے ایسی دوائیں تیار کی جا چکی ہیں جو وائرس میں مبتلا ہونے کے باوجود زندگی جاری رکھنے میں مددگار ہیں۔ تاہم چیچک جیسے بہت ہی مہلک وائرس کا خاتمہ ہوچکا ہے۔ باقی کئی وائرس اب بھی ہمارے ساتھ ہیں۔ کچھ وائرس رہ رہ کر واپس آتے ہیں - جیسے تپ دق۔
ماضی پرنگاہ ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ وبائی امراض کی دوسری لہر پہلے سے کہیں زیادہ خطرناک ہوسکتی ہے۔ یہی معاملہ 1918 ء میں ہسپانوی فلو کا تھا۔ اس کی لہریں گردش کرتی رہيں یہاں تک کہ 1920ء میں یہ فلو پھر جیسے دم توڑ گیا۔ مختصر یہ کہ ہميں صبر و تحمل سے کام لینا چاہيے اور لاک ڈاؤن ميں رہنا چاہيے۔
ٹھہرنے کے لیے آیا
1918ء کا ہسپانوی فلو تین بڑی لہروں میں آیا۔ اس وبائی مرض کے پھیلاؤ کا آغاز مارچ 1918ء میں ہوا اور اسی سال کے آخر میں دوسری لہر کے دوران اس کی انتہا ہوگئی۔ اس دوران، وائرس اتنا بدل گیا تھا کہ دوسری لہر کے دوران انفیکشن کے نتائج اور بھی تباہ کن تھے۔
امریکا میں بیماریوں کے کنٹرول اور روک تھام کے مرکز (سی ڈی سی) کا خیال ہے کہ امریکا میں فلو کی وبائی بیماری کی دوسری لہر زیادہ تر اموات کی ذمہ دار تھی۔
1919ء کے اوائل میں ایک تیسری لہر آئی۔ سی ڈی سی کے مطابق ، یہ سال کے وسط تک جاری رہی پھر ہسپانوی فلو میں کمی واقع ہوئی۔ ایک اندازے کے مطابق مجموعی طور پر قریب پچاس ملین افراد اس بیماری کا شکار ہوئے ۔ تاہم یہ وائرس شاید کبھی بھی مکمل طور پر ختم نہیں ہوا۔
جرمنی: ایک کنٹرول تجربہ؟
جب اپریل کے آخر میں کورونا وائرس کی ''ريپروڈکشن کی شرح‘‘ 1.0 کی حد سے گر کر 0.76 ہوگئی تو جرمن حکومت اور صحت کے حکام نے اسکولوں کو جزوی طور پر دوبارہ کھولنے پر اتفاق کیا۔ خاص طور سے ان تمام طلبہ کے ليے جو موسم خزاں میں اہم امتحانات دینے والے ہیں یا جو ابتدائی اسکول سے ثانوی اسکول میں جانے والے ہیں۔
اسکولوں نے کلاس رومز کو نئے سرے سے ڈیزائن کرنا اور کھیل کے میدانوں کو سیکیورٹی زونوں میں تقسیم کرنا شروع کیا۔ اس طرح، وہ اس بات کو یقینی بنانا چاہتے تھے کہ سوشل ڈسٹنسنگ کے اصول اور حفظان صحت کے ضوابط بھی مانے جاتے رہيں۔
تاہم، اس سے پہلے کہ اسکولوں اور طلباء کو کلاس میں واپس جانے اور ان ایڈہاک سکیورٹی کے تصورات کی جانچ کرنے کا موقع مل جاتا ، حکومت نے پابندیوں میں مزید نرمی کرنے کا فیصلہ کیا۔ چھوٹے بچوں کو بھی ہفتے ميں ایک دن اسکول جانے کی اجازت دی گئی۔
وائرس کیا ہیں؟
وائرس کے کچھ ماہرين کا خیال ہے کہ بعد میں ہونے والے تغیرات سے ایک وائرس کمزور ہوجاتا ہے اور اسی وجہ سے یہ کم مہلک ہوجاتا ہے۔ یہ صرف اس وجہ سے نہیں ہے کہ زیادہ سے زیادہ افراد اميون ہو جاتے ہیں بلکہ وائرس اپنی بقا اور ارتقا اور ریپلیکشن جاری رکھنے کے لیے زندہ جانوروں پر انحصار کرتا ہے اور یوں کوئی وائرس ہمارے معاشرے کا مستقل رکن بن جاتے ہيں۔
ناول کورونا وائرس کی دوسری لہر کے خطرے کی گھنٹی چین اور روس نے بجا دی ہے۔ ان دونوں ممالک ميں یہ انفیکشن رجسٹر کیا گیا ہے، اور یہاں تک کہ جنوبی کوریا میں ، جہاں کورونا وائرس کی پہلی لہر کی روک تھام کے لیے کیے گئے اقدامات کی تعریف کی گئی تھی ، وہاں اب لوگ ایک بار پھر Sars-coV-2 سے متاثر ہو رہے ہیں۔
ذولفقار آبانی /ک م، ع ت