1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کورونا وائرس، ایران بہت بڑی تباہی سے دوچار ہو سکتا ہے

18 مارچ 2020

چین اور اٹلی کے ساتھ ساتھ ایران کورونا وائرس سے متاثرہ ممالک میں سرفہرست ہے۔ بین الاقوامی برادری کی جانب سے تعاون میں کمی اور متنازعہ داخلی اقدامات  کی وجہ سے ایران ایک بہت بڑی تباہی سے دوچار ہو سکتا ہے۔

https://p.dw.com/p/3Zdv6
Iran Ghom | Coronavirus | Trauer um Verstorbene
تصویر: picture-alliance/Anadolu Agency/F. Bahrami

ایرانی دارالحکومت تہران  کی معتبر سمجھی جانے والی شریف یونیورسٹی کے محققین نے  کمپیوٹر سیمیولیشن کی مدد سے ملک میں  کورونا وائرس کی وبا کے پھیلاؤ کے حوالے سے مختلف منظر نامے پیش کیے ہیں۔ ان سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ اگر حکومت کورونا وائرس سے متاثرہ اور اس کے خطرے سے دوچار تمام علاقوں میں قرنطینہ کے ضوابط نافذ کر دے، عوام تمام حکومتی احکامات پر عمل کریں اور طبی سہولیات کی فراہمی میں بھی کوئی کمی نہ آئے، یعنی یہ تمام کام مثالی حد تک کامیابی سے کیے جائیں، تو ایک ہفتے کے اندر اندر ایران میں یہ وبا اپنی انتہا کو پہنچ جائے گی اور اس کے نتیجے میں انسانی ہلاکتوں کی تعداد بارہ ہزار  سے تجاوز کر جائے گی۔

Iran Ghom | Coronavirus | Begräbnis von Opfern
تصویر: picture-alliance/Anadolu Agency/F. Bahrami

تاہم دوسری جانب یہ تمام اقدامات اور اندازے غیر حقیقی بھی ہیں کیونکہ حکومت ملک کے وسیع تر علاقوں کے لیے قرنطینہ کا نہ اعلان کرے گی اور نہ ہی اس پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ عوام حکام  کی ہدایات بھی نظر انداز کریں گے اور ملکی طبی شعبہ تو امریکی پابندیوں اور شدید بد انتظامی کے باعث پہلے ہی تباہی کا شکار ہے۔

معاملہ سنجیدہ ہے

ان تمام حقیقت پسندانہ مفروضوں کی بنیاد پر تہران کے ماہرین نے کچھ اس طرح کی پیش گوئی کی ہے، ''مئی کے آخر تک ایران میں کورونا وائرس کی یہ نئی قسم پوری طرح پھیل چکی ہو گی اور مرنے والوں کی تعداد پینتیس لاکھ تک ہو سکتی ہے۔‘‘

سرکاری اعداد و شمار بھی حالات کی سنجیدگی کو ظاہر کر رہے ہیں۔ اب تک سولہ ہزار افراد میں اس وائرس کی تصدیق ہو چکی ہے اور حکام کے مطابق کووڈ انیس نامی اس بیماری سے اب تک 988 سے زائد افراد موت کے منہ میں جا چکے ہیں۔ اس طرح ایران اب کورونا وائرس کے  سبب انسانی ہلاکتوں کے اعتبار سے پوری دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے۔ تاہم ہلاک ہونے والوں اور متاثرہ افراد کی اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق یہ تعداد اس سے پانچ گنا زیادہ بھی ہو سکتی ہے۔

Iran Präsident Rohani: Keine Ausgangssperre im Land wegen der Corona-Krise
تصویر: Imago-Images/ZUMA Wire/Iranian Presidency

قبرستانوں کی توسیع

ایران میں کورونا وائرس کی اس نئی قسم کا آغاز قم شہر سے ہوا تھا۔ اٹھارہ فروری کو اس شہر میں کووڈ انیس کا پہلا مریض سامنے آیا تھا۔ حکام کی جانب سے اس شہر کے قبرستانوں میں توسیع کی جا رہی ہے۔ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے بارہ مارچ کی اپنی اشاعت میں ایک سیٹلائٹ تصویر جاری کی ہے، جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ قم شہر کے مضافات میں واقع ایک قبرستان میں کس تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور کئی فٹ بال اسٹیڈیمز کے رقبے کے برابر جگہ پر نئی قبریں بنائی یا کھودی گئی ہیں۔ خاص طور پر جنون کی حد تک مذہبی سوچ کے حامل حلقے اس صورت حال کی سنگینی کو سمجھنا ہی نہیں چاہتے تھے۔ حکام کئی ہفتوں کی پس و پیش کے بعد فاطمہ معصومہ کا مزار بند کرنے میں کامیاب ہو سکے تھے۔

پورے تہران کو قرنطینہ میں رکھنا 'غیر حقیقت پسندانہ‘

تہران میں کورونا وائرس سے سب سے زیادہ ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ یہ شہر حکومتی نااہلی کا منظر بھی پیش کر رہا ہے۔ اتوار کے روز ملک کے اعلٰی ترین مذہبی رہنما آیت اللہ علی خامنہ ای نے ملکی فوج کو حکم دیا کہ وہ صدر حسن روحانی کی ہدایات پر عمل کرے۔ کچھ دن قبل ہی خامنہ ای نے کمانڈر ان چیف کے طور پر خود ہی ایرانی فوج کو ہدایت دی تھی کہ وہ کووڈ انیس کے خلاف جنگ کی قیادت کرے۔

Iran Corona Virus
تصویر: picture-alliance/dpa/V. Salemi

 تاہم اس صورت حال میں یہ واضح نہیں ہو پا رہا  کہ موجودہ حالات سے نمٹنے کی ذمہ داری کس کے پاس ہے؟ تہران کے میئر پیروز حناچی یہ اعتراف کر چکے ہیں، ''ہمارے پاس تہران کو قرنطینہ کرنے کی صلاحیت ہے اور نہ ہی قابلیت۔ ہم پابندیوں کی وجہ سے قرنطینہ میں شہریوں کی دیکھ بھال نہیں کر سکتے۔‘‘

ادویات کی درآمد میں مشکلات

پچاس سالوں میں پہلی مرتبہ تہران حکومت نے عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے قرضے کی درخواست کی ہے۔ ایران نے ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لیے آئی ایم ایف سے پانچ ارب ڈالر مانگے ہیں۔اگر تہران کو یہ رقم مل بھی جاتی ہے، تو اس کے باوجود حکومت کے لیے اشیاء کی خریداری کوئی آسان کام نہیں ہو گا کیونکہ امریکا کی طرف سے عائد کردہ پابندیوں کے باعث ایران کے لیے بین الاقوامی سطح پر مالیاتی لین دین اور ادویات سمیت اشیاء اور ساز و سامان کی درآمد آسان نہیں ہے۔

شبنم فان ہائن (ع ا / م م)