بھارت میں چینیوں سے مشابہ افراد نسلی تعصب کا شکار
13 مارچ 2020بھارتی پولیس کو کورونا کے حوالے سے نسلی حملوں کی کوئی باضابطہ شکایت تو موصول نہیں ہوئی ہے تاہم اس نے اس طرح کے واقعات کا اعتراف کیا ہے اور یقین دہانی کرائی ہے کہ قصورواروں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی اور لوگوں میں بیداری مہم چلائی جائے گی۔
چین کی سرحد سے ملحقہ بھارت کی شمال مشرقی ریاستیں بالخصوص منی پور، اروناچل پردیش اور سکم کے باشندوں کے چہرے چین کے منگولیائی نسل کے لوگوں سے کافی مشابہ ہوتے ہیں اور عام طور پر لوگ چینی اور ان بھارتی شہریوں میں فرق نہیں کرپاتے ہیں۔ اس لیے کورونا وائرس کے پھیلنے کے بعد لوگ ان بھارتی شہریوں کو بھی چینی سمجھ کر شبہ کی نگا ہ سے دیکھنے لگے ہیں اور ان کے خلاف نسلی تعصب کے متعدد واقعات اب تک پیش آچکے ہیں۔
دہلی یونیورسٹی میں طلبہ کی ایک تنظیم میزو اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کی ایک عہدیدار لال فکاومی چاگتے بتاتی ہیں کہ وہ اپنی ایک سہیلی کے ساتھ یونیورسٹی کے قریب واقع ایک مارکیٹ کی طرف جارہی تھیں کہ کچھ مردوں نے ان پر طنز کسنا شرو ع کردیا۔ یہ لوگ ”کورونا وائرس واپس جاؤ‘‘ کے نعرے لگارہے تھے۔ چاگتے کہتی ہیں کہ انہوں نے پہلے تو یہ سوچا کہ شاید انہیں کچھ غلط سنائی دیا ہے۔ لیکن وہ لوگ کورونا واپس جاؤ کے نعرے مسلسل لگاتے رہے۔ جب وہ اُن کی طر ف گئیں تو وہ بھاگ گئے لیکن جاتے جاتے یہ کہتے رہے ” آپ لوگ یہاں سے چلے جائیں تاکہ ہمیں کورونا وائرس نہ لگے۔‘‘
جنوبی دہلی کے ایک پوش علاقے صفدر جنگ انکلیو کے رہائشی ایوما پیٹر کورونا وائرس کے پھیلنے کے بعد سے دہلی میں لوگوں کے رویے سے کافی مایوس ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے پڑوس میں رہنے والے بہت سے خاندانوں نے ان سے کہا کہ وہ سودا سلف لینے کے لیے دکانوں میں نہ آیا کریں بلکہ انہیں جن چیزوں کی ضرورت ہے اسے گھر پر ہی منگوالیا کریں۔ لیکن ”جو ملازم سامان لے کر گھر آتا ہے وہ بھی سامان دیتے اور پیسہ لیتے ہوئے جھجھک محسوس کرتا ہے۔"
ایوما پیٹر کہتے ہیں کہ انہیں اس وقت بہت زیادہ دلی تکلیف محسوس ہوتی ہے جب بعض پڑوسی انہیں دیکھ کر اپنا منہ ڈھک لیتے ہیں۔”وہ لوگ سوچتے ہیں کہ ہم چینی ہیں جہاں سے کورونا وائرس پھیلنا شروع ہوا۔" پیٹر کا کہنا ہے کہ حالانکہ ماضی میں بھی لوگ انہیں چینی سمجھ کران کے ساتھ اہانت آمیز رویہ اپناتے رہے ہیں لیکن ایسے ہنگامی حالات میں یہ رویہ مزید شدید ہوگیا ہے۔
شمال مشرقی خطے کے افراد کے لیے کام کرنے والی خصوصی پولیس یونٹ سے منسلک ایک سینئر پولیس افسر کا کہنا ہے کہ انہیں اب تک اس طرح کے واقعات کے بارے میں باضابطہ شکایت موصول نہیں ہوئی ہے لیکن انہیں اس بات کا اندازہ ہے کہ بعض علاقوں میں نسلی تعصب کے ایسے واقعات پیش آئے ہوں گے۔”یہ ایک ہنگامی صور ت حال ہے لیکن اس کا یہ قطعی مطلب نہیں کہ نسلی تعصب کی کسی بھی صورت میں اجازت دی جائے ۔ چونکہ اس طرح کے واقعات مسلسل بڑھ رہے ہیں اس لیے ہم لوگوں میں بیداری مہم شروع کریں گے۔"
یونائٹیڈ نارتھ ایسٹ ریزیڈنٹس فورم کے صدر چنگ لین سنگھ کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس پھیلنے کے بعد سے انہیں نسلی تعصب کی متعدد شکایتں موصول ہوئی ہیں۔انہوں نے اس حوالے سے ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے بتایا ”منی پور سے پہلی مرتبہ دہلی آنے والے ایک کنبہ کو کوئی بھی مکان دینے کے لیے اس لیے تیار نہیں ہورہا تھا کیوںکہ چین میں لوگ کورونا وائرس سے متاثر ہیں اور اس سے کافی لوگ مررہے ہیں۔ ہمیں اس معاملے میں مداخلت کرنی پڑی اور ہم بڑی مشکل سے انہیں یہ سمجھا پائے کہ یہ لوگ منی پوری ہیں اور انہوں نے آج تک چین کا منہ بھی نہیں دیکھا ہے۔"
چنگ لین سنگھ کا مشور ہ ہے کہ حکومت کو جہاں ایک طرف اس ہلاکت خیز وبا کو پھیلنے سے روکنے کے لیے طبی نظام کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے وہاں دوسری طرف سماجی بیداری پیدا کرنا بھی ضروری ہے تاکہ کورونا وائرس کی غلط فہمی میں لوگ کسی پر حملے نہ کردیں۔
گزشتہ ہفتے دہلی کے نواحی علاقے نوئیڈا میں مقیم ایک چینی شہری نے لوگوں کے حملے کے خوف سے خود کو اپنے فلیٹ میں بند کرلیا تھا۔ بعد میں پولیس نے آکر اس کی مدد کی۔
یہ امر قابل زکر ہے کہ کورونا وائرس کے پھیلنے کے بعد صرف بھارت ہی نہیں دنیا کے دیگر ملکوں میں بھی چینی شہریوں کو نسلی تعصب کا نشانہ بننا پڑ ا ہے۔
جاوید ا ختر، نئی دہلی