کیا پاکستان میں پانی کا بحران آنے والا ہے؟
30 اپریل 2020کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کے علاج کے لیے ابھی تک کوئی دوا دستیاب نہیں ہے اس لیے دنیا بھر کے طبی ماہرین اس سے بچاؤ کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے اور بار بار بیس سیکنڈ تک ہاتھ دھونے کی تاکید کر رہے ہیں، خود حکومتی ادارے واسا کی طرف سے شہریوں کو مختلف مقامات پر ہاتھ دھونے کی سہولت فراہم کی جارہی ہے۔ پانی فراہم کرنے والے سرکاری اداروں نے بل ادا نہ کرنے والے شہریوں کے کنکشن کاٹنے کا سلسلہ معطل کر دیا ہے اور پانی کی بلا تعطل فراہمی یقینی بنائے جا رہی ہے۔
ماہرین کے مطابق یہ ایک اچھی بات ہے کہ شہری صفائی ستھرائی کا خیال رکھ رہے ہیں اور مسلسل ہاتھ دھو رہے ہیں لیکن اس میں ایک تشویش کا پہلو یہ ہے کہ پانی کے غیر محتاط استعمال سے پانی کے زیر زمین ذخائرپر دباؤ میں بہت اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
لاہور کی فرحانہ نامی ایک خاتون نے بتایا کہ ہاتھ دھوتے ہوئے صابن کے استعمال کے دوران پانی والی ٹوٹی بند رکھ کر ایک فرد دو لیٹر پانی بچا سکتا ہے اور پانچ افراد کا خاندان پانی کی بچت کا دھیان کرکے ایک دن میں کم از کم سو لیٹر سے زائد پانی ضائع ہونے سے بچا سکتا ہے۔ اگر ہم پانی کی ایک ایک بوند کا خیال رکھیں تو ساری قوم مل کر پانی کے بحران کو پرے دھکیل سکتی ہے۔
پاکستان میں آبی امور کے ممتاز ماہر اور واٹر اینڈ سینیٹیشن ایجنسی (واسا) لاہور کے مینجنگ ڈائریکٹر سید زاہد عزیز نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ صرف لاہور کی اگر بات کی جائے تو ایک آدمی جو عام دنوں میں یومیہ پچاس گیلن پانی استعمال کرتا تھا وہ آج کل یومیہ ستر سے اسی گیلن پانی استعمال کر رہا ہے، یہی صورتحال ملک کے دیگر علاقوں میں نوٹ کی جا رہی ہے۔ تاہم کراچی، راولپنڈی اور فیصل آباد سمیت ایسے علاقے جہاں زمین سے اوپر ذخیرہ کیا گیا پانی استعمال ہو رہا ہے یا جہاں پر پانی دن میں کم وقت کے لیے آتا ہے وہاں لوگ پانی کا استعمال قدرے موثر طریقے سے کر رہے ہیں۔ ''اب ہم لاہور میں ہر گھر میں پانی کا میٹر لگا رہے ہیں، سات لاکھ میٹر لگانے کا یہ منصوبہ دو سال میں مکمل ہو گا۔ اس کے بعد دیگر علاقوں میں بھی یہ میٹر لگائیں گے، ہمیں امید ہے کہ اس کے بعد اگر گھر کے کسی پائپ سے پانی لیک بھی ہوا تو شہری اس کا دھیان کریں گے۔ ‘‘
سید زاہد عزیز کا کہنا تھا کہ انیس سو ساٹھ کے وقتوں میں پاکستان میں ہر پاکستانی کے لیے چھ ہزار کیوبک میٹر پانی سالانہ میسر تھا جو اب کم ہو کر صرف ایک ہزار میٹر کیوبک سالانہ رہ گیا ہے، ایک طرف پانی کم ہو رہا ہے دوسری طرف ہماری آبادی بڑھتی جا رہی ہے۔
'' ابھی تک دنیا بھر میں کسی بھی جگہ پر پینے کے پانی میں کورونا وائرس کی موجودگی نہیں پائی گئی ہے، ہم لاہور میں اسی لاکھ سے زائد لوگوں کو صاف اور محفوظ پانی مہیا کر رہے ہیں ، ہم نے طبی طور پر قابل اجازت حد تک پانی میں کلورین کا استعمال بڑھا دیا ہے۔ جس کی وجہ سے یہ پانی مزید محفوظ ہو گیا ہے۔‘‘
سید زاہد عزیز پاکستان بھر میں پانی فراہم کرنے والے اداروں کے کنسورشیم ، پاکستان واٹر آپریٹرزنیٹ ورک کے چئیرمین بھی ہیں ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کا نوے فی صد پانی زراعت میں استعمال ہوتا ہے اس لیے کم پانی لینے والی فصلوں کو اگانے اور پانی کی بچت والی زرعی ٹیکنالوجی اختیار کرنے کی ضرورت ہے، شہریوں کو ہاتھ دھوتے ہوئے، یا شاور لیتے ہوئے پانی کو دھیان سے استعمال کرنا چاہیئے،خواتین برتن دھوتے ہوئے پانی کے ضیاع کو روکیں، گاڑیاں پائپ سے نہیں پانی کی بالٹی سے دھوئیں، گھر کے باہر پانی کے غیر ضروری چھڑکاؤ سے گریز کیا جانا چاہیئے۔
''ہم حکومتی سطح پر بھی پانی بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہم بارشی پانی کو ذخیرہ کرنے کا بندوبست کر رہے ہیں، لاہور کے کار واش سنٹرز کو پانی کی ری سائیکلنگ کے ساتھ چلایا جا رہا ہے، لاہور کی پچاس مساجد میں وضو کے لیے استعمال شدہ پانی کو پارکوں میں استعمال کیا جا رہا ہے، ہم سید علی ہجویری کے مزار پر پچاس ہزار گیلن کا سٹوریج بنا رہے ہیں جس کے ذریعے ہم وہاں پر وضو میں استعمال ہونے والے پانی کو سرکلر گارڈن اور اقبال پارک کے سبزے کو سیراب کریں گے۔‘‘