1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کورونا وبا، بھارت سولہ برس بعد غیر ملکی امداد لینے پر تیار

2 اپریل 2020

بھارت میں کورونا وائرس کا بحران مزید گھمبیر ہوتا جا رہا ہے۔ وزیر اعظم نے وزرائےاعلی سے ایک اہم میٹنگ کے دوران ایک بڑی پالیسی تبدیلی کرتے ہوئے اس وبا کا مقابلہ کرنے کےلیے غیرملکی مالی امداد قبول کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/3aMQF
Narendra Modi Premierminister Indien
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Swarup

اکیس روزہ لاک ڈاون کے سبب روزگار سے محروم ہونے والے لاکھوں مزدور دہلی جیسے بڑے شہروں سے اپنے اپنے علاقوں میں پہنچ رہے ہیں۔ اس صورتحال نے ریاستی حکومتوں کے سامنے اقتصادی اور طبی محاذ پر ایک نیا اور غیر متوقع چیلنج کھڑا کر دیا ہے۔

بھارت میں کورونا وائرس سے متاثرین کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ جمعرات دو اپریل کومتاثرین کی مصدقہ تعداد اکیس سو اور ہلاک ہونے والوں کی تعداد ساٹھ سے زائد ہو چکی ہے۔ ریاستی حکومتیں یہ سمجھ نہیں پارہی ہیں کہ اس بحران کا مقابلہ کس طرح کیا جائے۔ اس صورتحال پر غور کرنے کے لیے گزشتہ دو ہفتوں کے دوران وزیر اعظم نریندر مودی کی ریاستی وزرائےاعلی کے ساتھ آج دوسری میٹنگ ہوئی۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ بیشتر وزرائے اعلی نے شکایت کی کہ انہیں اعتماد میں لیے بغیر ہی اکیس روزہ لاک ڈاون کا اعلان کر دیا گیا اور شہر چھوڑ کر اپنے اپنے گاوں جانے والے لاکھوں بے روزگارمزدوروں کو سہولیات فراہم کرنے کی ذمہ داری ان پر ڈال دی گئی۔

بعض وزرائے اعلی کا کہنا تھا کہ مرکزی وزارت داخلہ نے ریاستی حکومتوں کو اسٹیٹ ڈیزاسٹرریسپانس فنڈ (ایس ڈی آر ایف) میں موجود رقم استعمال کرنے کی اجازت دے تو دی ہے لیکن بیشترریاستوں میں اس فنڈ کی رقم صرف کھاتوں میں درج ہے کیوں کہ بہت سارے سابقہ بل مرکز  نےابھی تک ادا کیے ہی نہیں ہیں۔

ریاستوں کے سامنے ایک اور بڑی مصیبت یہ ہے کہ ان کی آمدنی کے ذرائع تقریباً بند ہو چکے ہیں۔ سیلز اور ایکسائز ٹیکس وغیرہ سے ہونے والی آمدنی رک گئی ہے جبکہ اخراجات بڑھتے جا رہےہیں۔ بعض ریاستی حکومتیں ملازمین کو تنخواہیں بھی نہیں دے پا رہی ہیں۔ میٹنگ میں بیشتروزرائے اعلی نے مطالبہ کیا کہ مرکز ان کے واجب الاد ا بقایہ جات فوراً ادا کرے۔

Indien Coronavirus Wanderarbeiter flüchten in ihre Heimatdörfer
لاک ڈاون کے بعدلاکھوں لوگ پیدل ہی اپنے گھروں کے نکل پڑےلیکن سفر کی صعوبتوں کی وجہ سے پچیس افراد جاں بحق ہوچکے ہیں۔تصویر: Reuters/A. Abidi

مرکز نے ریاستو ں کے لیے 31000 کروڑ روپے کے پیکج کا اعلان کیا ہے تاہم ریاستی حکام کا کہناہے کہ یہ رقم صرف رجسٹرڈ ورکرز کے لیے ہے جب کہ بیشتر مزدور اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوچکے ہیں۔

میٹنگ کے بعد جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے، ”وزیر اعظم مودی نے وزرائے اعلی سےکہا کہ مصیبت کی اس گھڑی میں مرکز اور ریاستی حکومتوں کے درمیان بہترین تعاون کی ضرورت ہے۔ مرکزی حکومت ان کے ساتھ کھڑی ہے لیکن لوگوں کی نقل مکانی کو ہر صورت میں روکنا ہو گا اور اس کے لیے ریاستوں کو اپنی طرف سے تمام انتظامات کرنا ہوں گے۔ مزدوروں کے لیے شیلٹر ہومز اور ان کے کھانے پینے کا انتظام بھی انہیں کرنا ہو گا اور ان سےاپیل کی جائے کہ وہ سڑکوں پر نہ نکلیں۔"

یہ بات قابل ذکر ہے کہ وزیر اعظم مودی نے 24 مارچ کی رات آٹھ بجے اکیس روز کے لیے مکمل لاک ڈاون کا اعلان کیا جس کے بعد  ملک بھر میں افراتفری کی صورت پیدا ہو گئی۔ لاک ڈاون شروع ہونے سے پہلے صرف چار گھنٹے کا وقت تھا ایسے میں لاکھوں لوگ سڑکو ں پر نکل آئے اورٹرانسپورٹ کی کوئی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے سینکڑوں میل دور اپنے اپنے گھروں تک پہنچنےکے لیے پیدل ہی سفر شروع کر دیا۔

اس سفر کے دوران مبینہ طور پر بھوک اور بیماری کے علاوہ حادثات میں اب تک تقریباً پچیس لوگوں کی موت واقع ہو چکی ہے۔ جو لوگ کسی طرح اپنے اپنے گھر پہنچ گئے، گاوں کے لوگ ان کےساتھ 'اچھوت‘ جیسا سلوک کر رہے ہیں۔

اس دوران مودی حکومت نے ایک اہم پالیسی تبدیلی کرتے ہوئے کورونا وائرس کا مقابلہ کرنے کے لیےقائم کردہ خصوصی مالی فنڈ 'پی ایم کیئرز‘  میں تمام ممالک اور ان کے شہریوں سے امداد قبول کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ بھارت نے پچھلے سولہ برس کے دوران اس طرح کی کوئی غیرملکی امداد قبول نہیں کی تھی۔ سن 2004 میں سونامی کے بعد اس وقت کی من موہن سنگھ حکومت نے یہ کہتے ہوئے غیرملکی امداد قبول نہ کرنے کی پالیسی بنائی تھی کہ بھارت اپنے بل بوتے پر قدرتی آفات کا مقابلہ کر سکتا ہے۔ اسی پالیسی کے مدنظر  سن 2018 میں جنوبی ریاست کیرالہ میں سیلاب کی وجہ سے زبردست تباہ کاری کے باوجود بھارت نے غیرملکی مدد لینے سے انکار کر دیاتھا۔

Gastarbeiter Migranten Delhi Indien Lockdown Camps
اکیس روزہ لاک ڈاون نے ریاستی حکومتوں کے سامنے اقتصادی اور طبی محاذ پر ایک نیا اور غیر متوقع چیلنج کھڑا کر دیا ہے۔تصویر: DW/S. Kumar

تاہم حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ ایک ”غیر معمولی صورت حال ہے اس لیے حکومت نے غیرملکی امداد قبول کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔" ذرائع نے یہ بھی واضح کیا کہ بیرونی ملکوں سے حاصل ہونےوالی امداد پوری طرح 'پی ایم کیئرز‘ فنڈ میں رکھی جائے گی اور اس کا کوئی دوسرا استعمال نہیں ہوگا۔

دوسری جانب پی ایم کیئرز فنڈ کے قیام پر سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔ یہ پوچھا جا رہا ہے کہ جب 1948سے ہی پی ایم نیشنل ریلیف فنڈ قائم ہے تو اس نئے فنڈ کے قیام کی کیا ضرورت تھی؟ اس فنڈ میں اب تک ہزاروں کروڑ روپے جمع ہو چکے ہیں اور بعض حلقوں نے اس فنڈ کے دوسرے مقاصد کےلیے استعمال کیے جانے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ وزیر اعظم اس فنڈ کے چیئرپرسن ہیں۔

جاویدا ختر، نئی دہلی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید