کورونا وبا کے سائے میں مناسک حج کا آغاز
29 جولائی 2020سعودی حکومت نے سعودی عرب میں مقیم صرف ایک ہزار افراد کو فریضہ حج ادا کرنے کی اجازت دی ہے۔ ان میں صرف 30 فیصد سعودی شہری ہیں جب کہ بقیہ کا تعلق دیگر ملکو ں سے ہے۔ حالانکہ دنیا بھر سے تقریباً پچیس تا تیس لاکھ افراد ہر سال حج کے لیے آتے تھے۔
کورونا وائر س کی وبا کے پیش نظر اس سال حج کو منسوخ کرنے کا خدشہ پیدا ہوگیا تھا تاہم بعد میں سعودی حکومت نے حج کے انعقاد کا اعلان کرتے ہوئے اسے انتہائی مختصر رکھنے کا فیصلہ کیا۔ اس سال سعودی شہریوں کے علاوہ صرف ان غیر ملکی شہریوں کو حج کی اجازت دی گئی جو سعودی عرب میں مقیم ہیں۔
سعودی حکومت کے اس فیصلے سے جہا ں دنیا بھر کے لاکھوں مسلمانوں کو مایوسی ہوئی وہیں بعض لوگوں نے اسے اللہ کی مرضی قرارد یا۔ ان سب کے درمیان عازمین حج کی آمد نہیں ہونے کی وجہ سے سعودی عرب کو اقتصادی لحاظ سے بھی نقصان کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ تیل کے بعد سعودی عرب کی آمدنی کا دوسرا سب سے بڑا ذریعہ حج و عمرہ سے ہونے والی آمدنی ہے۔
سیکورٹی کے حوالے سے کوئی تشویش نہیں
اس سال سکیورٹی کے حوالے سے کسی طرح کی تشویش نہیں ہے۔ سعودی عرب کے پبلک سکیورٹی کے ڈائریکٹر خالد بن قرارالحربی کا کہنا تھا ”اس مرتبہ حج کے دوران سکیورٹی کے سلسلے میں کسی طرح کی تشویش نہیں ہے لیکن عازمین کو کورونا وائرس کی وبا کے خطرے سے بچانے پر توجہ دی جارہی ہے۔"
سعودی عرب کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ایس پی اے کے مطابق جن لوگوں کو اس سال حج کی اجازت ملی، مکہ مکرمہ پہنچنے کے بعد ان کے کورونا کی جانچ کی گئی۔ عازمین حج کو پہلے اپنے گھروں میں قرنطینہ میں رہنے کے لیے کہا گیا تھا۔اس کے بعد مکہ کے ہوٹلوں میں انہیں چار دنوں تک قرنطینہ میں رکھا گیا۔ حج کے بعد بھی انہیں لازمی قرنطینہ میں رہنا ہوگا۔عازمین کو پانچ دنوں تک چلنے والے مناسک حج کی ادائیگی کے دوران ماسک پہننا لازمی ہوگا اورانہیں سوشل ڈسٹنسنگ کا بھی پورا خیال رکھنا ہوگا۔ حکام نے کعبہ کے چاروں طرف گھیرا بندی کردی ہے اور کہا ہے کہ کعبے اور حجر اسود کو چھونے کی اجازت نہیں ہوگی۔ حکومت نے اس کے علاوہ عازمین کی صحت کا خیال رکھنے کے لیے خصوصی مراکز، موبائل کلینک اور ایمبولنس تعینات کی ہیں۔
کورونا کی وبا کے پیش نظر سعودی وزارت صحت کے وضع کردہ ضابطوں کے تحت حجاج کرام آب زمزم کولروں یا نلوں سے حاصل نہیں کرسکیں گے اس کے بجائے انہیں پیک شدہ بوتلیں فراہم کرائی جائیں گی۔ ایک بوتل ایک ہی فرد کے لیے ہوگی۔
پاکستانیوں کو بھی مایوسی
عازمین حج کی تعداد انتہائی مختصرکردینے کے سعودی حکومت کے فیصلے سے دنیا کے دیگر ملکوں کے مسلمانوں کی طرف پاکستان کے مسلمانوں کو بھی مایوسی ہوئی ہے۔لاکھوں پاکستانیوں نے حج کے لیے درخواستیں جمع کرائی تھیں اور انہیں امید تھی کہ حج شروع ہونے سے قبل کورونا وائرس کی وبا ختم ہوجائے گی۔ لیکن ایسا نہ ہونے کی وجہ سے وہ اب مناسک حج کو اپنی ٹی وی اسکرینوں پر دیکھ کر صبر کریں گے۔
کسی بھی ملک سے عازمین حج کو اجازت نہیں دینے کی وجہ سے حج ٹریول سے وابستہ تاجروں کو بھی کافی نقصان ہوا ہے۔ پاکستان میں کوئی سات سے آٹھ سو کے قریب ٹریول کمپنیاں حج خدمات فراہم کرتی ہیں۔ ان میں سے ہر کمپنی 80 تا100 افراد کو مکہ مکرمہ لے جاتی ہے اوراس سے انہیں فی کس 20 سے 30 ہزار روپے کی آمدنی ہوتی تھی۔
مناسک حج
عازمین فریضہ حج کی ادائیگی کے لیے سب سے پہلے منی میں قیام کرتے ہیں۔وہ آٹھ ذی الحج یعنی 29 جولائی کو یہاں پہنچیں گے اور نو، گیارہ، بارہ اور تیرہ ذی الحج کی رات بھی منی میں ہی قیام کریں گے۔ 10ذی الحج کو عازمین میدان عرفات میں جمع ہوتے ہیں۔ میدان عرفات میں حج کا خطبہ دیا جاتا ہے۔ 10ذی الحج کی رات کو وہ مزدلفہ میں قیام کرتے ہیں اور پھر منی لوٹ آتے ہیں۔ جہاں رمی جمرات یعنی شیطانو ں کو کنکریا ں مارنے اور قربانی کرنے کی رسومات ادا کی جاتی ہیں۔
سعودی عرب کے فرمانروا خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز آل سعود نے شاہی دیوان کے مشیر اور سپریم علماء کونسل کے رکن الشیخ عبداللہ بن سلیمان المنیع کو امسال یوم عرفات کے موقع پر خطبہ حج کا امام مقرر کیا ہے۔ اس سال خطبہ حج کا اردو سمیت دس زبانوں میں ترجمہ بھی پیش کیا جائے گا۔