کوسوو کا اعلان آزادی اور سربیا کا احتجاج
18 فروری 2008وزیر اعظم ہاشم تھاچی نے پارلیمنٹ میں آزادی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ کوسوو ایک ایسی جمہوری ریاست ہوگی‘ جس میں اقلیت کو برابر کے حقوق ہوں گے۔انہوں نے کہا کہ کوسوو ریاست پورے خطے میں امن و استحکام کی خواہاں ہے۔
ہاشم تھاچی کی طرف سے آزادی کے اعلان کے بعد کوسوو کی تمام ہی سڑکوں پر جشن کا سا سماں تھا اور خوشی میں مست لوگ کوسوو کے نئے جھنڈوں کو لہراتے رہے‘ گاڑیوں کے ہارن بجاتے رہے اور قومی ترانے اور گیتوں کو گنگناتے رہے۔
ایک طرف جہاں کوسوو میں لوگ جشن منارہے تھے تو سربیا میں مشتعل سرب باشندے سراپا احتجاج تھے۔کئی مشتعل افراد نے سرب دارلحکومت بلغراد میں امریکی سفارت خانے کے باہر مظاہرے بھی کئے۔سربیا کی حکومت کوسوو کی سربیا سے علیحدگی کی سخت مخالف ہے۔روس بھی سربیا کی حمایت کررہا ہے۔اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا مستقل رکن ملک روس چاہتا ہے کہ اقوام متحدہ کوسوو کی آزادی کو تسلیم نہ کریں۔روسی سفیر برائے اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ روس کو کوسوو میں آباد اقلیتی سربوں کے حقوق اور ان کی حفاظت کے حوالے سے خدشات ہیں۔
اگرچہ امریکہ‘ برطانیہ‘ فرانس‘ اور یورپی یونین کے کئی دوسرے ممالک اصولی طور پر کوسوو کی سربیا سے مکمل آزادی کے حق میں ہیں‘ تاہم ان ممالک نے ابھی تک رسمی طور پر کوسوو کو ایک آزاد ریاست کی حیثیت سے تسلیم نہیں کیا ہے۔ایسی امید کی جارہی ہے کہ امریکہ اور یورپی یونین آئیندہ ایک یا دو ہفتوں میں کوسوو کی آزادی سرکاری طور پر تسلیم کریں گے۔
سربیا کے صدر بورس ٹاڈچ نے کوسوو کے خلاف سفارتی اور معاشی پابندیاں عائد کرنے کی دھمکی دی ہے تاہم فوجی مداخلت کو خارج از امکان قرار دیا ہے۔
آزادی کے رسمی اعلان کے بعد اب کوسوو کو بین الاقوامی برادری کی طرف سے اس عمل کا انتظار ہے جس سے اس کو ریاست کے طور پر تسلیم کیا جا ئے گا۔کوسوو میں بیس لاکھ البانوی نژاد مسلمان آباد ہیں اور یہ سب منتظر ہیں کہ کون سا ملک سب سے پہلے کوسوو کو آزاد ریاست کی حیثیت سے تسلیم کرے گا؟